Helpie FAQ

  • عملیات یا نظریات کو بیان کرنے کے لیے “ازم” (ism) کا استعمال بعض اوقات منفی معنی رکھتا ہے، کیونکہ یہ عموماً سخت عقائد یا نظریات کو ظاہر کرتا ہے۔ “صوفی ازم” بمقابلہ “تصوف” کے سیاق میں، تشویش یہ ہے کہ تصوف کو “ازم” کے طور پر لیبل کرنے سے یہ تاثر مل سکتا ہے کہ یہ محض بہت سے نظریاتی نظاموں میں سے ایک ہے، جو اس کے گہرے، تجرباتی اور اسلامی عمل میں جڑے ہوئے روحانی جوہر کو کم کر سکتا ہے۔ اس طرح کی کمی شاید تصوف کو اسلام کے اندر ایک لازمی اور زندہ راستے کے طور پر دیکھنے کے بجائے، اسے الگ یا جامد نظریہ بنا کر پیش کرے۔

  • تصوّف کا عالمی ثقافت پر گہرا اثر رہا ہے، جس نے فنون، موسیقی، شاعری، اور ادب کو متاثر کیا ہے۔ صوفی اولیاء کی تعلیمات نے، مذہبی اور ثقافتی سرحدوں کو پار کرتے ہوئے، محبت، اتحاد، اور انسان ہونے کے معنی کی تلاش پر لازوال حکمت پیش کی ہے۔

  • تصوّف یکساں محبت، رحم، برداشت اور تمام مخلوقات کی اتحادیت پر زور دینے کے ذریعہ امن اور سماجی ہم آہنگی کو فروغ دیتا ہے۔ فردوں کو ان کے انا کو عبور کرنے اور دوسروں کے ساتھ اپنے فطرتی تعلق کو شناخت کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے، تصوّف عالمی عالمی بھائی چارے کے احساس کو پروان چڑھاتا ہے اور سب کی بہتری کے لیے وابستگی کو فروغ دیتا ہے۔

  • تصوف میں خوابوں کو روحانی طور پر بڑی اہمیت حاصل ہے، اور اکثر انہیں وہ ذریعہ سمجھا جاتا ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ خواب دیکھنے والے کو ہدایت، تنبیہ یا بصیرت عطا فرماتا ہے۔ صوفی اپنے خوابوں پر گہری نظر رکھتے ہیں اور انہیں اپنے روحانی سفر کا ایک لازمی حصہ اور الٰہی حکمت حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔

    تاہم، سرکار بابا صاحب (رحمت اللہ علیہ) نے ہمیں یہ بھی نصیحت فرمائی کہ خوابوں کی خود سے تعبیر کرنے کی کوشش نہ کریں، کیونکہ اس میں غلطی کا بڑا امکان ہوتا ہے۔ خواب اس لیے نہیں ہوتے کہ وہ آپ کو منافع بخش کاروباری سودے یا اپنے پسندیدہ سیاسی امیدوار کو ووٹ دینے کی ہدایت دیں۔ خواب ایک فرد کے لیے خاص مقام رکھتے ہیں اور وہ ان معاملات کو بیان کرتے ہیں جو واقعی اس کی ذات کے لیے اہم ہوتے ہیں۔

  • خواتین صوفی عملیات اور صوفی سلسلوں میں مکمل طور پر شرکت کرسکتی ہیں اور کرتی آرہی ہیں۔ تاریخی طور پر، بہت سی نمایاں خواتین صوفیوں کا ذکر ملتا ہے، اور موجودہ دور کے صوفی سلاسِل میں عورتوں کو اکثر اہلیت، اساتذہ، اور رہنماؤں کے طور پر شامل کیا جاتا ہے۔ تصوف میں روحانی ترقی کے لئے جنسیت کو کوئی رکاوٹ نہیں سمجھا جاتا۔

  • صوفی روایتوں میں، علم بنیادی طور پر استاد (شیخ) اور شاگرد (مرید) کے درمیان براہ راست، دل سے دل تک کے تعلق کے ذریعے منتقل ہوتا ہے۔ یہ روحانی تسلسل یقینی بناتا ہے کہ تعلیمات صرف نظریاتی نہیں بلکہ تجرباتی حکمت اور رہنمائی کے ساتھ ہوتی ہیں، جو شاگرد کی شخصی تبدیلی کو ممکن بناتی ہیں۔

  • تصوف میں مراقبہ نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے کیونکہ یہ اللہ سے براہ راست تعلق قائم کرنے کا ذریعہ ہے۔ اس میں ذہن کو پرسکون کرنا اور دل کو اللہ کی حضوری پر مرکوز کرنا شامل ہے، تاکہ سالک کو ایسی روحانی بصیرتیں اور شعور کی کیفیات نصیب ہوں جو اُسے الٰہی حقیقت کے قریب لے جائیں۔ اس کو حاصل کرنے کے کئی طریقے ہیں۔ سرکار بابا صاحبؒ نے ہمیں اذکار کی صورت میں پاسِ انفاس کو اس میں اولین ترجیح دی ہے۔

  • صوفیوں کا ماننا ہے کہ روح اور رَبّ کے درمیان کا تعلق انتہائی قربت اور براہ راست مواصلت کا ہے۔ وہ یقین رکھتے ہیں کہ روح الہی سے نکلتی ہے اور اپنے ماخذ کی طرف واپس جانے کی خواہش رکھتی ہے۔ اس روحانی سفر کی نشانی علم اور محبت میں گہرائی کا اضافہ ہوتا ہے، جو الہی ذات کے ساتھ ایکتا کو محسوس کرنے تک پہنچتا ہے۔

  • ایک صوفی کی روزمرہ کی عملیات میں عموماً عباداتی نمازیں (صلاۃ)، خدا کے ناموں کی تلاوت (ذکر)، مراقبہ (مراقبہ)، روحانی ادبیات کی مطالعہ، اور صوفی تعلیمات کی رہنمائی میں اخلاقی اور اخلاقی اصولوں کی پابندی شامل ہوتی ہے۔ یہ عملیات دن بھرخدا کو یاد کرنے اور ان سے رابطہ قائم کرنے کے لیے انجام دی جاتی ہیں، جو کہ مسلسل روحانی شعور اور حضورکے حال کو فروغ دینے کا مقصد رکھتے ہیں۔

  • جی ہاں۔ تصوف شخصی ترقی اور خود بہتری پر زور دیتا ہے۔ یہ مومِنِین کو عاجزی، صبر، اور ہمدردی جیسی خصلتوں کو فروغ دینے کی ترغیب دیتا ہے، جبکہ انہیں انا پرستی، غصہ، اور حسد جیسے منفی عادات پر قابو پانے کے لئے کام کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔ تصوف کی مشقوں اور تعلیمات کا مقصد کسی شخص کے کردار اور شعور کو نکھارنا ہے، جو روحانی اور اخلاقی نشوونما کے لئے ایک جامع نقطہ نظر کو فروغ دیتا ہے۔

  • تصوف خدائی محبت کو اپنے روحانی راستے کا جوہر سمجھتا ہے، جو خدا سے گہری اور ذاتی تعلق کو زور دیتا ہے۔ یہ محبت محض روایتی عبادت سے بالاتر ہے، جس کا مقصد دل کی گہری عبادت اور خود کو خدائی موجودگی میں ضم کرنا ہے۔ عمل کرنے والے اپنے دل کو پاک کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جس سے خدائی محبت کے لئے ایک وصولی ذریعہ بن جاتا ہے، جو اندرونی تبدیلی کی رہنمائی کرتا ہے اور انسانی مرضی کو خدائی مرضی کے ساتھ مطابقت دیتا ہے۔

  • صوفی راہ یعنی تصوف کسی فِرقہ کے ہم معنی نہیں ہے، یعنی شیعہ، سنی، یا ان کی ذیلی اقسام. تصوف فقہ کی مختلف شکل بھی نہیں ہے، جیسے کہ حنفی، شاذلی، جعفری، وغیرہ. ایک معروف صوفی، حضرت عبدالقادر الجیلانیؒ، حنبلی فقہ کو قبول کرتے تھے، جبکہ ایک دوسرے معروف صوفی حضرت خواجہ غریب نوازؒ حنفی فقہ کا مطابقت کرتے تھے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ تصوف ایک بہت کھولی اور خوش آمدید نظریہ ہے۔ کئی اولیاء کے بے شمار غیر مسلم مریدین ہیں، جیسے ہمارے اپنے حضرت بابا تاج الدینؒ۔ حضرت بابا تاج الدینؒ کی سیرت سے ہم ایک سبق سیکھ سکتے ہیں، جہاں اُن کے ایک شیعہ مرید نے سنی نماز کے طریقے کو اپنانے کی کوشش کی۔ اس پر بابا صاحبؒ نے اُسے تصحیح کی، کہ دوسرے پیر بھائیوں کے ساتھ میل کرنے کی خاطر تبدیل نہیں کرنا چاہئے۔

  • اکثر حوالہ جات کہ مطابق، تصوف کے چار ستون ہیں: توبہ ، اخلاص ، ذکر، اور محبت۔ تاہم، سرکار یوسف شاہ باباؒ نے محض شیخ کے ساتھ مخلص محبت کرنے کی تعلیمات پر ہی توجہ دی۔ یہ عمل بذاتِ خود، دوسرے تمام ستونوں پر بھی توجہ مرکوز کر دیتا ہے۔ جب تک ایک مرید “مخلصانہ” طور پر اپنے شیخ سے محبت کرتا رہتا ہے، تو توبہ اور اللہ کی یاد و ذکر کے مراحل خود بخود ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایک عام آدمی کے لِیے، توبہ ایک نہایت ہی عجیب تصوّر ہے۔ یہ تب تک شروع نہیں ہوگی جب تک کوئی شدید کڑی کشش نہ پیدا ہوجائے جو کہ ایک شخص کی توجہ ہمیشہ اپنے ربّ کی طرف رکھے۔ ربّ کو پانے کی حسرت کو بڑھاوا دینے کے لِیے، جن تمام چیزوں کی ضرورت ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں

    شیخ کی رغبت > جو محبت میں تبدیل ہوجاتی ہے > اور وہ پھر مزید ندامت اور مسلسل ذکر کا باعث بنتا ہے۔

  • فی الوقت، ہم یہاں وحدت الوجود کا ایک انتہائی بنیادی اور عمومی خاکہ پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔

    وحدت الوجود ایک انتہائی قدیمی تصوّر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں اس کے اشارے دیتے ہیں۔ مزید، حدیثِ نبوی بھی چند نکات بیان کرتی ہے جو اس تصوّر پر مزید روشنی ڈالتے ہیں۔ لیکن، اس لفظ کو اپنی زیادہ تر مقبولیت حضرت ابن العربیؒ کی گفتگو سے حاصل ہوئی۔ عام زبان میں وحدت الوجود کا معنیٰ یہ ہے کہ، جب کچھ موجود نہ تھا، اللہ تعالیٰ کے علاوہ۔ جو چیز بھی وجود میں آئی، وہ اللہ تعالیٰ کا ایک جُز ہے۔ ہر چیز کی بنیادی مادَّہ، اپنی حتمی شکل میں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ لہذا، اللہ تعالیٰ کی اپنی ذات ہے جو کائنات میں موجود ہر چیز کو جوڑتی ہے، کیونکہ کوئی ایسی چیز کا وجود نہیں، جس کا بنیادی مادَّہ اللہ تعالیٰ نہیں ہیں۔

    اسی نظریہ کے مخالف سرے پر “وحدت الشہود” کا تصوّر ہے جس کی تعلیم حضرت احمد سرہندیؒ نے دی تھی۔ وحدت الشہود نے بھی اپنی زیادہ تر مقبولیت ۱۶۰۰ء کی دہائی میں حاصل کی۔ یہ تصوّر حضرت ابن العربیؒ کی تعلیمات کے عین مخالف سمجھا جاتا ہے۔ ان کا اس تصور میں ماننا تھا کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کے ساتھ محض مشاہدے میں جڑی ہوئی ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے اس چیز کو تخلیق یا پیدا کردیا، تو اب وہ تخلیق اللہ تعالیٰ کے ساتھ وحدت میں نہیں رہی۔

  • مختصراً، یہ اسلام سے مختلف نہیں ہے. آئیے، اس کی وجہ دریافت کرتے ہیں۔ جب کوئی شخص بیاہ کرتا ہے، تو کیا وہ اُس لحاظ سے ایک انسان نہیں رہتے؟ کیا وہ اب محض میاں اور بیوی ہیں، کیا وہ انسان نہیں رہے؟ بالکل نہیں! وہ بیک وقت دو کردار ہوسکتے ہیں۔ اب اس منطق کو تھوڑا دوسری طرف سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہر شادی شدا شخص ایک انسان ہے۔ لیکن ہر انسان شادی شدہ نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح، ہر صوفی مسلمان ہے، لیکن ہر مسلمان صوفی طریقت کی راہ پر نہیں ہوتا۔۔

    اصل میں، اسلام ایک انتہائی بنیادی اصول ہے جس کی حضرت محمدؐ نے سب کو تبلیغ کی۔ اسلام کے قواعد و ضوابط تمام مسلمانوں پر لاگو ہوتے ہیں، چاہے وہ صوفی ہے یا نہیں۔ دراصل، اسلام کی اہمیت (شریعہ) بیان کرنے کے لِیے، حضرت محمدؐ ایک زندہ نمونہ بن گئے کہ جس کی ہر مسلمان پیروی کر سکے اور کرنی بھی چاہیے۔ تاہم، کچھ ایسی باطنی تعلیمات تھیں، جن کا اطلاق حضرت محمدؐ نے خاص اشخاص پر کیا اور وہ عام عوام کے لِیے نہیں تھیں۔ جب ان افراد کو اس کی تربیت دی گئی، تب بھی وہ مسلمان ہی رہے، کیونکہ ان دو تعلیمات میں کوئی بھی تضاد نہیں ہے۔

    آپ سنت نبویؐ کی مثال کو دیکھ لیں۔ حضرت محمدؐ کے بعض طریقوں پر عمل بجا لانا لازمی نہیں ہے، لیکن پھر بھی کچھ لوگ ان پر عمل کرتے ہیں۔ یہ ان کو بندگی اور عقیدت کی بلندیوں پر لے جاتا ہے، لیکن یہ ان کو اسلام سے منحرف نہیں کرتا ہے۔

    یہ سب جان لینے کے بعد، اس موضوع کو سمجھنا اور مشکل ہوجاتا ہے کہ جب ہم کسی ایسے فرد کو دیکھتے ہے جو عیسائی صوفی، یہودی صوفی، یا اگنوسٹک صوفی وغیرہ ہونے کا اعلان کرتا ہے۔ ایسے واقعات  ہوتے تو غیر معمولی ہیں، لیکن یہ کسی بھی مستند سلاسلِ طریقت کے مطابق نہیں ہوتے ۔ احسان کے راستے پر چلنے سے پہلے، کوئی بھی شخص اسلام اور ایمان کے اصولوں سے انحراف نہیں کر سکتا۔ لہذا، بہت سے صوفیاء کرام کے بیشمار غیر مسلم عقیدت مند موجود ہیں۔ تاہم، خالق کی جانب ان کا راستہ مسلمانوں سے مختلف ہے۔ تصوف دل کی جِلا اور روح کی پرواز کو زندہ کرنے کے لِیے حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات میں سے ہے۔ اس سے فوائد حاصل کرنے کے لِیے کسی کو اسلام قبول کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے بہتے ہوئے دریا سے فائدہ اٹھانے کے لِیے کسی کو ایمان بدلنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ اندرونی تغیر و تبدیلی پہلے سے ہی تصوف کا حصہ ہے، لیکن ویسے نہیں جیسے لوگ سمجھتے ہیں۔ جب ایک شخص کسی دوسرے شخص کے ساتھ وفا اور پیار کا عہد کرتا ہے، تو پھر وہ کیسے ایک جیسے رہ سکتے ہیں؟ کون جانتا ہے کہ وہ اپنے تصوف کے سفر میں کس مقام پر ہیں؟

  • یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے ۹۹ اسماء الحسنہ میں سے “الرشید” سے نکلا ہے۔ اس لفظ کا معنیٰ “راستہ دکھانے والا یا رہنما” ہے۔ کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک نام ہے، تو جس کو وہ راستہ دکھاتا ہے، وہ کبھی نہیں بَھٹکتا۔ اسی طرح، بنی نوع انسان کے درمیان میں سے، جب کسی کو بطور ایک رہنما چُنا جاتا ہے، تو وہ مرشد کہلاتا ہے۔ اسی ضمن میں، مرشد وہ ہوتا ہے جس کو کوئی شخص دین کی راہ پر چلنے میں رہنمائی کرنے کے لِیے منتخب کرتا ہے۔ جب بھی یہ موضوع گفتگو میں آتا ہے، تو ہمارے سرکار حضرت بابا شاہ محمود یوسفیؒ صورہ کہف (18:17) کا حوالہ دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس آیت میں واضح بیان کرتے ہیں کہ جس کو بھی اللہ تعالیٰ بھٹکاتے ہیں، اس شخص کو نہ تو کوئی “ولی” ملتا ہے، اور نہ ہی کوئی “مرشد”۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ولی اور مرشد عطا فرماتے ہیں جن لوگوں کی اللہ تعالیٰ رہنمائی فرمانا چاہتے ہیں۔ اسی وجہ سے، لوگ ایسے لوگوں کی کھوج میں لگے ہوتے ہیں جو ولی اللہ ہوں۔ ایک شیخ وہ شخص ہوتا ہے جو اپنے مرشد کی جانب سے ایک مکمل رہنما نامزد کیا گیا ہوتا ہے۔ لہذا، اوپر سے اسناد کا ایک واضح سلسلہ موجود ہوتا ہے۔

    ایک چیز جو آپ کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ ہر ولی مُرشد نہیں ہوتا۔ لیکن کوئی بھی شخص جس کو مرشد بننے کے لِیے چُنا جاتا ہے، اس کا ولی ہونا ضروری ہے، اور یا پھر کم از کم، نسبتِ محمد مصطفٰی۔ اسی طرح، ہر شیخ آپ کا شیخ نہیں ہوتا۔ محض اس لِیے کہ مُرشد اور ولی کے درمیان نسبت ایک انتہائی قریبی اور نِجی رشتہ ہوتا ہے۔ آپ کے مرشد کو نہ صرف آپ کی روح کی مکمل سمجھ ہونی چاہیے، بلکہ وہ آپ کی نفسیات کو بھی جانتا ہو۔ بدقسمتی سے، کسی فرد کو ایک شیخ بننے کی اجازت دینے کا یہ انتخاب موجودہ دور میں ہی صرف مسائل سے دوچار نہیں ہے، بلکہ ایسا کافی عرصہ سے ہورہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی شخص ایک ولی، مُرشد، یا شیخ کی تلاش میں اپنا پورا وقت لیتا ہے اور کسی شخص کے ہاتھ بیعت ہونے سے پہلے مکمل طور پر مطمئن ہونے کو ترجیح دیتا ہے۔ ہمارے اپنے سرکار، حضرت بابا شاہ محمود یوسفیؒ کہتے ہیں کہ خود انہیں بھی بیعت کے سلسلے میں فیصلہ کرنے میں بہت وقت لگا۔ یہ ایسی چیز نہیں ہے کہ کوئی شخص اس کو جلدبازی میں، دوستوں کہ دباؤ میں آکر، یا یہاں تک کے آدب میں آکر کرے۔

  • عام زبان میں، یہ راہِ طریقت کا مترادف ہے۔ لیکن دوسرے نقطہ نظر میں، تصوّف وہ نام ہے جسے ہمارے دین کی تیسری تہہ کی تَکميل پَذيری کے مطالعے کو دیا جاتا ہے۔ پہلی تہہ اسلام ہے، دوسری تہہ ایمان ہے، اور تصوّف کی تیسری تہہ احسان ہے۔ حدیث جبرائیل کے مطابق، ہم نے حضرت محمدؐ سے مندرجہ ذیل باتیں سیکھیں:

    اسلام

    ۱. اللہ تعالیٰ کے واحد ہونے کی اور حضرت محمد اللہ کے نبی ہے، کی گواہی دینا (شہادت)۔

    ۲. نماز قائم کرنا (صلاة)۔

    ۳. صدقہ خیرات کرنا (زکوٰۃ)۔

    ۴. رمضان المبارک کے مہینے میں روزے رکھنا (صوم)۔

    ۵. اور زندگی میں کم سے کم ایک بار کعبہ اپنا طَواف گاہ بنانا (حج)۔

    ایمان

    ۱. اللہ پر یقین کامل ہونا (توحید) ۔

    ۲. اللہ کے فرشتوں پر یقین کامل ہونا (مَلئِكَتِه)۔

    ۳. اللہ کی کتابوں پر یقین کامل ہونا (كُتُبِه)۔

    ۴. اللہ کے نبیوں پر یقین کامل ہونا (رَسُوْلِه)۔

    ۵. اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ یومِ آخرت پر یقین کامل ہونا (الْيَوْمِ الْاخِرِ)۔

    ۶. اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو اچھا یا بُرا بیان فرمایا ہے، اس پر یقین کامل ہونا (خَيْرِه وَشَرِّه)۔

    احسان

    •اللہ تعالیٰ کی ایسے عبادت کرنا کہ گویا اُس کو آپ دیکھ رہے ہوں۔

    •اور اگر ایسا آپ کے لِیے ممکن نہیں ہے، تو اس ایمان سے اُس کی عبادت کرنا کہ جیسے اللہ تعالیٰ آپ کو دیکھ رہے ہوں۔

    اگر کوئی شریعت کا مطالعہ کرے، تو اسلام کے مطالعہ کو سمجھ سکتا ہے، جس میں آداب اور صاف صفائی شامل ہیں۔ اسی طرح، ایمان کو بھی اس طرح سے بہتر سمجھا جا سکتا ہے کہ جب کوئی حدیث، سنت، اور طریقت کے علوم میں توجہ مرکوز کرے۔ تصوّف وہ عمل ہے جو عموماً تب شروع ہوتا ہے جب ایک انسان اسلام اور ایمان کے مراحل کی تکمیل کرچکا ہوتا ہے اور احسان کو سمجھنے کا منتظر ہوتا ہے۔ تصوّف کو بطور حقیقت اور معرفت کی راہ بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ تصوّف کی کوئی انتہا نہیں ہے، أَصْحَاب الصُّفَّة کا طریقہ۔ اگر کوئی واقعی یہ یقین کر لے کے وہ اللہ تعالیٰ کو دیکھتا ہے، تو کیا واقعی اس شاندار منظر کا کبھی اختتام ہوسکتا ہے؟

  • لفظ صوفی، کئی کتابوں اور آن لائن کے ذرائع کے مطابق، لفظ “صوف” یا اون سے اخذ کیا گیا ہے۔ لیکن دراصل، یہ اخذ کیا گیا ہے “صُّفَّة” سے، جس کا مطلب ہے سایہ۔ پہلے یہ لفظ “أَصْحَاب الصُّفَّة” کے ضمن میں استعمال کیا جاتا تھا، اُن صحابہ کے لِیے جو غریب اور کنوارے تھے اور جن کا مکہ شریف میں کوئی رشتہ دار نہ تھا۔ ابتدائی طور پر اُن صحابہ کی تعداد ایک سو سے زیادہ تھی۔ تاہم، اُن کی یہ تعداد وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی اور کم ہوتی چلی گئی۔ حضرت محمدؐ نے ان صحابہ پر جو وقت، دھیان ، اور توجہ دی، اس وجہ سے یہ صحابہ صوفیاء کرام میں سے اوّل صوفی سمجھے جاتے ہیں۔ وہ صحابہ قرآن شریف، حدیث، اور فقہ جیسے مضامین میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوگئے۔ جیسے جیسے اُن کی ظاہری تعلیم و تدریس بلندیاں چھونے لگی، اُن کی باطنی روحانی تکمیل شعور کی مزید بلندیوں پر پہنچ گئی۔

    انہی صحابہ سے، تصوّف کا تصوّر اُمت مسلمہ کی عام عوام تک پہنچا۔ ان کی تعلیمات سادہ الفاظ میں وہی تھیں جو ہمارے سرکار حضرت بابا شاہ محمود یوسفیؒ “دل کی جِلہ، اور روح کی پرواز” کے طور پر وضع کی تھیں۔ راہِ طریقت وہی راستہ ہے جس پر چلتے ہوئے انسان روح کی اونچی پرواز تک پہنچتا ہے۔ اور جس طرح ہر پرندہ پرواز کرنے کے لِیے ایک جیسا راستہ اختیار نہیں کرتا، اسی طرح، دو صوفی بھی کوئی ایک راستہ کبھی بھی اختیار نہیں کرسکتے۔ یہ راستے اور سمتیں انفرادی ضروریات کے ساتھ ساتھ طاقت، کمزوریاں، اور راہِ طریقت کے رہنماوُں کی بنیاد پر تبدیل ہوں گی۔ جب تک کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے نبی حضرت محمدؐ کی جانب رہنمائی فرماتے ہیں۔ وہ سب کچھ ٹھیک ہے جس کا اختتام اچھا ہوتا ہے۔

  • سلسلہ یوسفی کا مقصد وہی ہے جیسا کہ حضرت بابا تاج الدینؒ نے، حضرت بابا یوسف شاہ تاجیؒ کو ہدایت دی تھی۔ اور وہ ہدایت خود حضرت بابا تاج الدینؒ کو پھیلانا ہے۔ کوئی شاید یہ بھی سمجھے، کہ اس سے شاید مراد سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بھرتی کرنے کی ہے، یا شاید کے حضرت بابا تاج الدینؒ کے نام کی شہرت کرنا ہے۔ لیکن محض ایسا کرنا کافی نہیں ہے۔ ایک سلسلہ کا مقصد صرف وسیع تر ہونا، اور محض اِسی مقصد کے لئے لوگوں کو سلسلہ میں شامل کرنا، کبھی بھی نہیں ہوتا۔ اس فانی دنیا میں یہ کام تو صرف مختلف کلب، مختلف ممبر شپ دینے کے لِیے دولت و نمائش کی خاطر کرتے ہیں۔

    اصل مقصد تو خود حضرت بابا تاج الدینؒ کو پھیلانا تھا۔ اور یہ کام صرف ایسے ہوسکتا ہے کہ سلسلہ کا ہر فرد اپنے آپ میں حضرت بابا تاج الدینؒ بن جائے، اور ان تعلیمات اور ذہنیت کو مزید پھیلائے۔ تو قصہِ مختصر، سلسلہ یوسفی کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے آپ میں حضرت بابا تاج الدینؒ بن جائیں۔ ہمارے سرکار، حضرت بابا شاہ محمود یوسفیؒ، اکثر اوقات حضرت امام حسینؓ کی مثال دیتے ہیں کہ

    ”کوئی بھی حُسین نہیں بن سکتا۔ یہ ناممکن بات ہے!
    لیکن بطور ایک نمونہ حضرت امام حسینؓ ہمارے لئے
    موجود ہیں کہ ہم جتنا ممکن ہوسکے اُن جیسے بن جائیں۔“

    یہی نظریہ یہاں لاگو ہوتا ہے۔ سلسلہ یوسفی وہ سلسلہ ہے جس کو حضرت بابا تاج الدینؒ نے اپنایا۔ اور ہمارا مقصد یہ ہے کہ بطور ایک بشَر، جتنا ممکن ہوسکے، ہم حضرت بابا تاج الدینؒ کی مانند ہوجائیں۔ یہ مشق صرف غیر حقیقی خیالات سے نہیں شروع ہوگی۔ اور نہ تو یہ تب تک تکمیل کو پہنچے گی جب ہم چاہیں گے۔

    اس مشق کو تکمیل تک پہنچانے میں وقت لگے گا۔ شاید پوری زندگی! وقت کے اِس دورانیہ کو سمجھداری کے ساتھ گزاریں۔ اس مشق کے دَوران، ضرورت مندوں کی ضروریات کو جتنا ممکن ہوسکے پورا کریں۔ اس عمل کے دَوران ان لوگوں کی مدد کریں جن کو بہت تھوڑی یا کوئی بھی مدد حاصل نہیں ہے۔ اُن تمام اچھی چیزوں کی ایک علامت بنیں جن کی تعلیم حضرت محمدؐ نے اپنے عقیدت مندوں کو دی۔ اور اگر آپ ایسا نہیں کرسکتے، تو کم از کم ایسے شخص کی طرح خود کو ڈھال لیں جس نے ”سنجیدگی سے اپنی پوری کوشش کی“۔

This site is registered on wpml.org as a development site. Switch to a production site key to remove this banner.