ابتدائی زندگی اور خاندانی پس منظر
حضرت بابا شاہ محمود یوسفیؒ کی ولادت ۱۰ جنوری ۱۹۴۴ء (۱۴ محرم ۱۳۶۳ھ) بروز پیر، برما (موجودہ میانمار) کے قصبہ کمایوٹ میں ہوئی۔ آپ کا گھرانہ علم و دولت کے ساتھ روحانیت میں بھی ممتاز تھا۔ آپ کے والد محترم محمد جعفر شیرازیؒ اور دادا جان آغا محمود شیرازیؒ کا تعلق ایران کے شہر شیراز کے معزز خاندان سے تھا۔
آپ کا سلسلہ نسب حضرت صفی الدین ابو الفتح اسحاق اردبیلیؒ تک پہنچتا ہے، جنہیں ”شیخ اردبیلیؒ“ کے لقب سے شہرت حاصل تھی۔ آپ فیروز شاہ زریں کلاہؒ کی ساتویں پشت سے تھے اور سلاسلِ قادریہ و صفویہ سے وابستہ تھے۔
نوٹ: مزید تفصیلی سوانح حیات کے لیے، براہِ کرم اُن کی جامع سوانح حیات ملاحظہ کریں، جو صرف سلسلہ اراکین کے لیے دستیاب ہے (لاگ اِن ضروری ہے)۔ یا داستانِ دَرویش PDF ڈاؤن لوڈ کریں۔
روحانی نسب اور سلاسلِ نسبت
سرکار بابا صاحب کا تعلق، تین مختلف اور منفرد شجروں سے ہوتا ہوا، ہمارے آقا اور محبوب حضرت محمد ﷺ سے جاملتا ہے۔
- شجرہ قادریہ — حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ، غوث الاعظم سے نسبت۔
- شجرہ چشتیہ — حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ، خواجہ غریب نواز سے تعلق۔
- شجرہ اویسیہ — حضرت اویس قرنیؒ سے روحانی ربط۔
خاندانی ہجرت اور مریم کے درخت تلے ولادت
صفوی دور میں جب شاہ اسماعیل نے شیعہ عقیدہ اپنانے کا فرمان جاری کیا تو حضرت شیخ اردبیلیؒ کے خاندان نے سنّی عقیدہ کی حفاظت کے لیے مختلف سمتوں میں ہجرت کی۔
برما کے صوبہ شان میں بادشاہ نے انہیں عزت و اکرام سے جگہ دی۔ کاروبار پھلا پھولا مگر دوسری جنگِ عظیم کے دوران حالات بگڑ گئے۔ خاندان نے کلکتہ (ہند) ہجرت کا فیصلہ کیا۔ اسی دوران جب سب بندرگاہ پر جہاز کے انتظار میں تھے، سرکار کی والدہ محترمہ بی بی صاحبہؒ کو تکلیف محسوس ہوئی۔ انہیں ایک درخت کے نیچے آرام دیا گیا — وہ ”درختِ مریم“ تھا۔ اسی درخت کے سائے تلے، ربّ کریم کے فضل سے، حضرت بابا شاہ محمود یوسفیؒ کی ولادت ہوئی ۔
بچپن اور تربیت
والدِ محترم کے وصال کے وقت آپ کی عمر محض تین برس تھی۔ وصال سے قبل والدِ گرامی نے اپنی اہلیہ بی بی صاحبہؒ کو نصیحت فرمائی کہ وہ اپنے قریبی دوست منظورالحق رحمانیؒ سے نکاح کرلیں۔ بعد ازاں بی بی صاحبہؒ نے اسی وصیت پر عمل کیا۔ منظورالحق صاحبؒ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز میں کپتان تھے، اور انہوں نے سرکار کو اپنی حقیقی اولاد سے بڑھ کر محبت، تعلیم اور تربیت دی۔
آپ کی تعلیم ڈھاکہ سے شروع ہوئی اور راولپنڈی میں مکمل ہوئی۔ سر سید اسکول سے میٹرک میں اوّل پوزیشن حاصل کی، پھر گورڈن کالج سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ جولائی ۱۹۹۳ء میں جامعہ کراچی اور دارالعرفان کی جانب سے آپ کوروحانی فلسفہ کی ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا ہوئی۔
روحانی سفر کا آغاز
روحانیت کا ذوق آپ کو والدِ محترم سے ورثے میں ملا جنہوں نے حضرت صوفی محمد فاروق رحمانیؒ (المعروف پیر فاروقؒ یا پنڈت فاروق صاحبؒ) سے بیعت کی تھی۔ ان کے پیر بھائی حضرت عارف رحمانیؒ (بھائی جان قبلہؒ) اکثر راولپنڈی میں قیام فرماتے اور سرکار کے کمرے میں ہی ٹھہرتے۔
بھائی جان قبلہؒ کی محبت ایسی تھی کہ جب وہ جاتے تو دل بے قرار رہتا۔ ایک دن ائیرپورٹ پر جب آپ کی نگاہ بھائی جان قبلہؒ پر پڑی، تو دل پر وجد و استغراق کی کیفیت طاری ہوئی۔ قریب ہی شاعر احمد فراز موجود تھے جنہوں نے یہ شعر کہا:
یہ عالمِ شوق کا، دیکھا نہ جائے
وہ بُت ہے یا خُدا، دیکھا نہ جائے
یہ منظر عشق و حال کی شدت کا آئینہ تھا۔ ایک دن جب کئی لوگ بیعت کے لیے قطار میں کھڑے تھے، سرکار بھی شامل ہوئے۔ مگر بھائی جان قبلہؒ نے مسکراتے ہوئے فرمایا:
”نہیں چاند! ابھی نہیں! تمہارا نام ہماری کتاب میں نہیں۔ میں تو صرف تمہارا پرائیوٹ ٹیوٹر ہوں۔ تمہارا معاملہ کہیں اور کا ہے، اور تم پہچان لوگے جب وہ آئیں گے۔“
یہ سن کر آپ خاموش ہو گئے مگر دل میں ایک یقین جاگ اٹھا کہ وہ ”اصل شیخ“ جلد ظاہر ہوگا۔
بری امامؒ کے روحانی واقعات
راولپنڈی کے قریب نورپور شاہاں (موجودہ اسلام آباد) میں درگاہِ حضرت بری امامؒ آپ کے روحانی سفر کا اہم موڑ ثابت ہوئی۔ نوجوانی میں آپ اکثر سائیکل پر وہاں جاتے، گھنٹوں مراقب رہتے۔ گدی نشین صاحبؒ اور ان کی اہلیہ آپ سے بے حد عقیدت رکھتے، اکثر اصرار کرتے کہ آپ کھانے میں ان کے ساتھ شریک ہوں۔
درگاہ کے درویشوں نے آپ کو ”نورِ نظرِ بری امامؒ“ کہا — یعنی ان کی آنکھوں کی روشنی۔ گدی نشین نے فرمایا:
”یہ بڑے شاہ جی کے منظورِ نظر ہیں، بری امامؒ کے محبوب ہیں۔“
ایک دن آپ نے وہاں ایک دراز قامت، وجیہہ شخصیت کو دیکھا جو مسلسل یہ شعر پڑھ رہے تھے:
فارسی: ”در جوانی توبہ کردن، شیوائے پیمبری“
معنی: ”جوانی میں توبہ کرنا، پیغمبروں کا شیوہ ہے“
آپ نے گدی نشین صاحبؒ سے پوچھا: ”کیا آپ کو یہ صاحب نظر آ رہے ہیں؟“
جواب ملا: ”نہیں، ہمیں کوئی شخص نظر نہیں آ رہا۔“
آپ نے قریب جا کر دوبارہ دیکھا، مگر وہ شخصیت سب کے سامنے غائب ہوگئی۔ یہ راز کچھ عرصے بعد اس وقت کھلا جب وہی ہستی آپ کے گھر بطور ”خاص مہمان“ تشریف لائی۔
ایک خاص مہمان کی آمد
ایک دن سیٹلائٹ ٹاؤن، راولپنڈی کے گھر میں آپ اپنے کمرے میں تھے، بھائی جان قبلہؒ بھی وہاں قیام فرما تھے۔ دروازے پر دستک ہوئی۔ آپ باہر آئے تو وہی دراز قد صاحب سامنے کھڑے تھے جنہیں آپ بری امامؒ کی درگاہ پر دیکھتے تھے۔
انہوں نے پوچھا: ”کیا عارف میاں ہیں؟“
آپ نے عرض کیا: ”کون پوچھ رہے ہیں؟“
جواب ملا: ”ان سے کہیے، ہم آئے ہیں۔“
آپ اندر گئے اور بھائی جان قبلہؒ کو اطلاع دی کہ باہر ایک صاحب آئے ہیں اور کہہ رہے ہیں: ”ہم آئے ہیں۔“ یہ سنتے ہی بھائی جان قبلہؒ تسبیح چھوڑ کر ننگے پاؤں دوڑتے ہوئے باہر گئے، ادب سے ان کے قدموں پر ہاتھ رکھا، اور تعظیم سے کھڑے ہوگئے۔ گھر والے حیران رہ گئے کہ آخر یہ کون ہستی ہے جن کے لیے ایک بزرگ شیخ اس قدر ادب و تڑپ کے ساتھ باہر نکلے۔
بیعت و تربیت کے مراحل
دروازے پر آنے والے وہی بزرگ تھے جنہیں آپ درگاہِ بری امامؒ پر دیکھ چکے تھے۔ وہ نہ کوئی اجنبی تھے، نہ کوئی عام مسافر۔ یہ حضرت کنور اصغر علی خاں صاحبؒ المعروف حضرت بابا البیلے شاہ یوسفیؒ تھے ، جن کے محض اِشاروں پر نظامِ روحانیت کا دارومدار ہوتا ہے۔
سن ۱۹۶۰ء کے آس پاس، سرکار بابا صاحب اپنے خاندان کے ساتھ راولپنڈی سے کراچی منتقل ہوگئے اور یہیں سے سفرِ روحانیت کے اہم واقعات رونما ہوئے۔
بتاریخ ۱۲ جنوری ۱۹۷۳ء (۶ ذوالحج ۱۳۹۶ھ) بھائی جان قبلہؒ کا وصال ہوا۔ وہ سرکار بابا صاحب کے ذاتی معلّم کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں پوری کر چکے تھے۔ ان کے وصال کے بعد سرکار بابا صاحب شدید اداسی اور خاموشی میں ڈوب گئے تو بی بی صاحبہؒ فکرمند ہوئیں اور ایک سہیلی کے مشورے پر حضرت بابا ذہین شاہ تاجیؒ کے پاس گئیں؛ ملاقات کے اختتام پر انہوں نے فرمایا آپ انہیں بھیج دیں: ”دیکھتے ہیں، اگر فقیر کوئی مدد کرسکے۔“ چند روز بعد میوہ شاہ شریف کی خانقاہِ عالیہ تاجیہ میں پہلی حاضری میں ۱۱–۱۲ گھنٹے بیت گئے۔
پھر روزانہ حاضری ہونے لگی اور سرکارِ اعلیٰ حضرتؒ کے آنا جانا دیکھ کر دل میں گہرا ربط پیدا ہوا؛ بھائی جان قبلہؒ کی نشانی یاد آئی اور سرکار بابا صاحب دل ہی دل میں انہیں محبوب شیخ ماننے لگے۔ مجلس میں واضح ہوا کہ سرکارِ اعلیٰ حضرتؒ کسی کو مرید نہیں کرتے اور اشارہ فرماتے ہیں کہ حضرت ذہین شاہ باباؒ سے بیعت کافی ہے۔
چنانچہ عیدالفطر کی تقریبات میں، غالباً ۷ مارچ ۱۹۶۲ء کی محفلِ سماع کے دوران جب یہ قوالی کا یہ مصرع پڑھا جا رہا تھا، ”عید گاہ ما غریباں کوئے تو / انبساطِ عید دیدن روئے تو“—اسی وقت سرکار بابا صاحب نے حضرت ذہین شاہ باباؒ کے دستِ حق پر بیعت کرلی۔
چِلّہ شریف
سرکارِ اعلیٰ حضرتؒ کی توجہ کے زیرِ سایہ، حضرت بابا ذہین شاہ تاجیؒ نے روحانی ارتقا کے لیے چِلّہ لازم قرار دیا۔ اُس وقت کراچی کے نواحی بَفَر زون (غیر آباد علاقہ) میں خانقاہِ یوسفیہ تاجیہ کی خریدی ہوئی زمین پر یہ خلوت گزاری ہوئی—آج وہیں تاجُ المساجد قائم ہے۔
چلہ کے دوران ”بہت سے مُتبرک اذکار“کے ساتھ ”شغلِ شمسی“ کی مشق بھی ہوئی—ایک ایسی مشق جس میں اللہ تعالیٰ کے اسمائے حُسنیٰ ایک مخصوص ترتیب میں اذکار کی جاتی ہیں۔
عاجزی و محبت
اجازتِ بیعت ملنے کے بعد بھی سرکار بابا صاحب نے اپنے مرید بنانے کے بجائے لوگوں کو سلسلہ میں داخل کرنے کی نیت سے بیعت لی۔ اگرچہ سرکار بابا صاحب گُلدستہ شریف پر دستخط کرنے اور مُریدوں کو دینے کے مجاز بھی تھے، لیکن، سرکار بابا صاحب لوگوں کو حضرت ذہین شاہ باباؒ کی جانب بھیجتے اور اُن سے اصرار کرتے کہ وہ حضرت ذہین شاہ باباؒ کو ہی اپنا شیخ سمجھیں، کیونکہ سرکار بابا صاحب کے مطابق آپ کا کام محض لوگوں کو سِلسلہ میں داخل کرنے کا ہے۔
آپ ہمہ وقت ایک ”کُن فیکون“ کی کیفیت میں رہتے تھے۔ سرکار بابا صاحب کراچی سے پنجاب کی طرف تشریف لے گئے۔ وہاں پر، لاہور سے لے کر شُمالی علاقہ جات اور جنوبی پنجاب تک، آپ سِلسلہ کی تبلیغ اور انسانیت کے عزت و احترام کی نشر و اشاعت کا کام کرتے رہے۔
البیلی یوسفی تاج پوشی
سن ۱۹۸۱ء میں ایک خاص روحانی تقریب منعقد ہوئی۔گھر کے باغ میں خاندان کی سالگرہ کی خوشی الگ، اور اندرونی نشست میں مشائخِ سلاسل، اولیا اور خلفا کی موجودگی میں قرآن خوانی، فاتحہ اور سلام کے بعد سرکارِ اعلیٰ حضرتؒ نے ایک فیصلہ کن جملہ ارشاد فرمایا:
“اب سے آپ کو کسی کے ذریعے سے میرے پاس آنے کی ضرورت نہیں ہے۔”
سلسلہ کی خدمات
۱۹۸0ء میں تاج نگری کا قیام ہوا اور یہ وہ مبارک زمانہ جب در و دیوار ذکر و سماع سے گونجتے، چھبیسویں شریف کی مجالس میں اہلِ محبت دَور دَور سے کھنچے چلے آتے، اور کراچی کے ہر رُخ پر نسبتِ یوسفیہ کے چراغ روشن ہوتے۔
تاج نگری کے بعد غلبۂ فیضان نے راستہ شمالی امریکہ کا دکھایا۔۱۷ نومبر ۱۹۸۶ء کو خاندان کے ساتھ نیویارک ہجرت ہوئی۔ امریکہ میں رہ کر عرس و فاتحہ کی سلسلہ وار مجالس جاری رہیں؛ بے شمار امریکی و کینیڈین اہلِ دل نسبتِ یوسفیہ سے وابستہ ہوئے، محفلیں سجیں، ذکر و سماع کے حلقے بنے، اور خانقاہی نظام جدید دور کے وسائل کے ساتھ وسعت پاتا گیا۔
یہی وسعت آگے چل کر ریاستِ ٹیکساس، شہرِ ہوسٹن میں مرکزیت کی صورت اختیار کر گئی۔ اعلان فرمایا:
”ہم تو ہوسٹن چلے۔ جو آسکتا ہے، تو آجائے۔“
پھر یوں ہوا کہ بیشتر مریدین قریب ہی آباد ہوگئے؛ ہفتہ وار اور سالانہ اجتماعات، آن لائن مجلسیں، اور نگرانی و نصیحت کے ذریعے فیضان کی ترسیل کا نظام قائم رہا۔
آپ کی مجالس میں فارسی و اردو کے منتخب اشعار ذریعے اظہارِ حال بنتے۔ شیخ سعدیؒ کے گلستان سے اخذِ حکمت، مولانا جامیؒ کا نکتۂ بندگی—
”تا داغِ غلامیِ تو داریم، ہر جا کہ رویم بادشاہیم“
(جب تک اُن کی غلامی کا داغ دل پر رہے، ہم جہاں جائیں بادشاہ رہیں)
یہ سب آپ کی زبانِ حال تھا۔ آپ کا اندازِ تربیت نرم، مہربان، مگر عینِ اصول تھا؛ ادبِ دربارِ اولیاء، سنّت کی پیروی، اور کتاب و ذکر کی روشنی—یہی آپ کا پیغام تھا۔
آخر میں یہی جھلکتا ہے کہ آپ کی سیرت میں کُن فیکون کی تاثیر، دعا کی قبولیت، اور جماعت کی دل جویی ایک ساتھ جمع تھیں؛ مگر محور ہمیشہ ادبِ شیخ اور محبتِ اولیاء رہا۔ یہی وجہ ہے کہ جو بھی دل اس دہلیز پر آیا، اپنے ظرف کے مطابق فیض لے کر گیا—اور آج تک یہ فیضان اُس دعا کی طرح جاری ہے جس کی قبولیت کا راز اخلاص میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ یہ داستانِ درویش اسی اخلاص اور اسی نسبت کی زندہ علامت ہے—جس کی جلوہ بانی سے نسلیں رہنمائی پاتی رہیں گی۔ سرکار بابا صاحب کی سوانح تفصیل میں پڑھنے کے لِیے داستانِ درویش کا مطالعہ کریں۔