Advice Against Being Sanctimonious

Advice Against Being Sanctimonious

Reference: This is a simplified version of Letter #150 from Nahj-ul-Balagha.

حوالہ: یہ نہج البلاغہ کے خط نمبر 150 کا مختصر شدہ ارائے ہے۔

Note: This advice is useful for all Muslims; however, it is extremely more potent for As-Haab-e-Tasawwuf today. As with most of Hazrat Ali (RZ)’s writings and speeches, this too is short and direct to the point. It may require multiple readings and a clear understanding each time to fully grasp what is being advised.

نوٹ: یہ مشورہ تمام مسلمانوں کے لئے مفید ہے، لیکن آج کے دن اصحاب تصوف کے لئے اس کی اہمیت زیادہ بڑھتی ہے۔ حضرت علیؓ کے اکثر تحریر اور تقریرات کی طرح، یہ بھی مختصر اور موضوع پر منتقل ہے۔ اس کو پوری طرح سمجھنے کے لئے ممکن ہے کہ کئی مرتبے پڑھنے اور ہر بار واضح فہم کی ضرورت ہو تاکہ سمجھنے میں پوری کامیابی حاصل کی جا سکے۔


The Advice:

نَصِیحَت:

When a person requested advice and counsel from Hazrat Ali ibn Abu Talib (RZ). To this, His Eminence Maula Ali Mushkil Kusha (RZ) replied,

ایک شخص نے حضرت علی ابن ابو طالبؓ سے پند و موعظت کی درخواست کی۔ تو آپ، آں حضرت مولا علی مشکل کشاؓ نے فرمایا:

Do not be like someone who hopes for happiness in the afterlife without taking any action, delaying repentance by indulging in desires. They may speak like ascetics in this world, but their actions contradict their words. If they receive something, they’re not satisfied; if denied, they’re not content. They’re ungrateful for what they have and crave more. They advise against wrongdoing in others but not in themselves. They preach what they don’t practice, love the virtuous but don’t emulate them, and hate vice but engage in it.

تم کو ان لوگوں میں سے نہ ہو نا چاہیئے کہ جو عمل کے بغیر حسن انجام کی امید رکھتے ہیں اور اُمیدیں بڑھا کر تو بہ کو تاخیر میں ڈال دیتے ہیں، جو دُنیا کے بارے میں زاہدوں کی سی باتیں کرتے ہیں مگر ان کے اعمال دنیا طلبوں کے سے ہوتے ہیں۔ اگر دنیا انھیں ملے تو وہ سیر نہیں ہوتے اور اگر نہ ملے تو قناعت نہیں کرتے ، جو انھیں ملا ہے اس پر شکر سے قاصر رہتے ہیں اور جو بچ رہا اس کے اضافہ کے خواہشمند رہتے ہیں۔ دوسروں کو منع کرتے ہیں اور خود باز نہیں آتے اور دوسروں کو حکم دیتے ہیں ایسی باتوں کا جنھیں خود بجا نہیں لاتے۔ نیکوں کو دوست رکھتے ہیں، مگر ان کے سے اعمال نہیں کرتے اور گنہگاروں سے نفرت و عناد رکھتے ہیں، حالانکہ وہ خود انہی میں داخل ہیں اپنے گناہوں کی کثرت کے باعث موت کو بُرا سمجھتے ہیں ، مگر جن گناہوں کی وجہ سے موت کو ناپسند کرتے ہیں، انہی پر قائم ہیں۔

They fear death due to their sins but cling to what makes them afraid of death. When sick, they feel ashamed; when healthy, they indulge in leisure. Upon recovery, they become conceited; in affliction, they lose hope. When in distress, they pray fervently, but in ease, they turn away. They’re controlled by their desires and lack self-control. They fear minor sins in others but expect more reward for their own deeds. Wealth makes them arrogant. Poverty makes them despair. They’re brief in good deeds but excessive in begging. They quickly commit sins but delay repentance. Hardships make them exceed the bounds of the Islamic community. They preach but don’t practice what they preach, talk a lot but act little, value transient gains over lasting ones, and fear death but take no precautions.

اگر بیمار پڑتے ہیں تو پشیمان ہوتے ہیں اور تندرست ہوتے ہیں تو مطمئن ہو کر کھیل کود میں پڑ جاتے ہیں ۔ جب بیماری سے چھٹکارا پاتے ہیں تو اترانے لگتے ہیں اور مبتلا ہوتے ہیں تو ان پر مایوسی چھا جاتی ہے۔ جب کسی سختی و ابتلا میں پڑتے ہیں تو لا چار و بے بس ہو کر دعائیں مانگتے ہیں اور جب فراخ دستی نصیب ہوتی ہے تو فریب میں مبتلا ہو کر منہ پھیر لیتے ہیں۔ ان کا نفس خیالی باتوں پر انھیں قابو میں لے آتا ہے اور وہ یقینی باتوں پر اسے نہیں دبا لیتے۔ دوسروں کے لیے ان کے گناہ سے زیادہ خطرہ محسوس کرتے ہیں اور اپنے لیے اپنے اعمال سے زیادہ جزا کے متوقع رہتے ہیں۔ اگر مالدار ہو جاتے ہیں تو اترانے لگتے ہیں اور فتنہ و گمراہی میں پڑ جاتے ہیں اور اگر فقیر ہو جاتے ہیں تو ناامید ہو جاتے ہیں اور سستی کرنے لگتے ہیں۔ جب عمل کرتے ہیں تو اس میں سُستی کرنے لگتے ہیں اور جب مانگنے پر آتے ہیں تو اصرار میں حد سے بڑھ جاتے ہیں، اگر ان پر خواہش نفسانی کا غلبہ ہوتا ہے تو گناہ جلد سے جلد کرتے ہیں اور تو بہ کو تعویق میں ڈالتے رہتے ہیں، اگر کوئی مصیبت لاحق ہوتی ہے تو جماعت اسلامی کے خصوصی امتیازات سے الگ ہو جاتے ہیں، عبرت کے واقعات بیان کرتے ہیں مگر خود عبرت حاصل نہیں کرتے اور وعظ و نصیحت میں زور باندھتے ہیں مگر خود اس نصیحت کا اثر نہیں لیتے۔ چنانچہ وہ بات کرنے میں تو اونچے رہتے ہیں عمل میں کم ہی کم رہتے ہیں۔ فانی چیزوں میں نفسی نفسی کرتے ہیں اور باقی رہنے والی چیزوں میں سہل انگاری سے کام لیتے ہیں۔ وہ نفع کو نقصان اور نقصان کو نفع خیال کرتے ہیں۔ موت سے ڈرتے ہیں مگر فرصت کا موقع نکل جانے سے پہلے اعمال میں جلدی نہیں کرتے۔

They see others’ sins as major but their own as minor. Their own deeds for Allah seem significant, but they consider the same actions by others insignificant. They reprimand others but flatter themselves. They prefer socializing with the wealthy over remembering Allah with the poor. They pass judgments for their own interests and not for others’ benefit. They guide others but misguide themselves. They are obeyed but disobey Allah. They seek their own rights but neglect their responsibilities to others. They fear people more than Allah in public matters.

دوسرے کے ایسے گناہ کو بہت بڑا سمجھتے ہیں جس سے بڑے گناہ کو خود اپنے لیے چھوٹا خیال کرتے ہیں اور اپنی ایسی اطاعت کو زیادہ سمجھتے ہیں، جسے دوسرے سے کم سمجھتے ہیں۔ لہذاوہ لوگوں پر معترض ہوتے ہیں اور اپنے نفس کی چکنی چپڑی باتوں سے تعریف کرتے ہیں۔ دولتمندوں کے ساتھ طرب و نشاط میں مشغول رہنا انہیں غریبوں کے ساتھ محفل ذکر میں شرکت سے زیادہ پسند ہے ۔ اپنے حق میں دوسرے کے خلاف حکم لگاتے ہیں، لیکن کبھی یہ نہیں کرتے کہ دوسرے کے حق میں اپنے خلاف حکم لگائیں۔ اوروں کو ہدایت کرتے ہیں اپنے کو گمراہی کی راہ پر لگاتے ہیں، وہ اطاعت لیتے ہیں اور خود نا فرمانی کرتے ہیں اور حق پورا پورا وصول کر لیتے ہیں، مگر خود ادا نہیں کرتے۔ وہ اپنے پروردگار کو نظر انداز کر کے مخلوق سے خوف کھاتے ہیں اور مخلوقات کے بارے میں اپنے پروردگار سے نہیں ڈرتے۔