Practicing Paas-e-Anfaas

Who:

Sarkar (RA) has numerous times instructed all of us in the Silsila to practice as much as possible. However, it is not limited to our Silsila or Sufis in general. It will be helpful for everyone and can be done by anyone.

کون:

سرکارؒ نے ہم سب کو سلسلے میں بہت بار اس کی ہدایت فرمائی ہے۔ تاہم، یہ ہمارے سلسلے، یا عام طور پر صوفیوں تک مخصوص نہیں ہے۔ یہ سب کے لئے مفید ہوگی اور کسی بھی شخص کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔

What:

When asked what Paas-e-Anfaas meant, Sarkar (RA) replied, “Nafas Ki Paasbani” (Guarding the Breath).

کیا:

جب پوچھا گیا کہ پاسِ اَنفاس کا کیا مطلب ہے، تو سرکارؒ نے جواب دیا، ”نَفس کی پاسبانی“ (سانس کی حفاظت کرنا)۔

Where:

Usually, prayers are only done in clean areas and environments. However, this Zikr takes the form known as Zikr-e-Khafi or Zikr-e-Qalbi. This essentially means that the recitation is done internally without using words or sounds. For this reason, it can be done anywhere an at any time.

کہاں:

عام طور پر، دعائیں صاف جگہوں اور ماحولوں میں کی جاتی ہیں۔ تاہم، یہ ذکر، زکر خفی، یا ذکر قلبی کی صورت اختیار کرتا ہے۔ یعنی اِسکی تلاوت کو بغیر کسی الفاظ، یا آواز کے، اندر ہی اندر سے کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے یہ کہیں بھی اور کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے۔

When:

It can be done at any time. In fact, one would try their best to keep this Zikr going for as long as possible, as often as possible.

کب:

یہ کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے۔ درحقیقت، ہر ایک اس ذکر کو جتنی دیر تک اور جتنی بار ممکن ہو، جاری رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

Why:

Paas-e-Anfaas, like most other Azkaar, is done in remembrance and devotion. Primarily, it is done to maintain a strong connection with Allah (SWT). In this case, it involves the repetitive recitation and meditation with breathing on specific phrase. The purpose of this Zikr is multifaceted; it serves as a means of seeking spiritual purification, inner peace, to keep oneself occupied in remembrance of the Creator, and a heightened sense of consciousness of the Divine Presence. By engaging in Zikr, we aim to cultivate a closer relationship with our Creator, increase mindfulness of our faith, and draw strength and tranquility from our devotion, ultimately leading to a deeper understanding of our purpose in life and a sense of spiritual fulfillment.

کیوں:

پاسِ انفاس، جیسا کہ زیادہ تر دوسرے أذكار کی طرح، اللہ کی یاد اور بندگی کے لئے کیا جاتا ہے۔ پہلی بات تو یہ، کہ اللہ کے ساتھ مضبوط تعلق قائم رکھنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر، ایک مخصوص جملے کی تکرار کی تلاوت اور مراقبہ، سانس لینے کے ساتھ شامل ہے۔ اس ذکر کا مقصد متعدد ہوتا ہے؛ یہ روحانی پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ بنتا ہے، اندرونی امن کی بنیاد رکھتا ہے، خالق کی یاد میں خود کو مصروف رکھنے کا ذریعہ بنتا ہے، اور الہی موجودگی کے شعور کو بڑھاتا ہے۔ ذکر میں شامل ہو کر ہمارا مقصد ہے کہ ہم اپنے خالق کے قریبی تعلق کو پیدا کریں، اپنے ایمان کی ذہانت میں اضافہ کریں، اور اس یاد کے بدولت طمانی اور آرام حاصل کریں، جس سے آخر کار ہمیں زندگی کا مقصد اور روحانی تسلی کا احساس حاصل ہوتا ہے۔

References:

  • Allah (SWT) has prescribed a general form of Zikr in his Book (Quran 7:205), which openly invokes his remembrance for us all.
  • In Hadith (Sunan Ibn Majah 3790), Prophet Muhammad described “Remembering Allah” as the best deed.
  • The Hadith reported by Hazrat Ibn Abbas mentions (Sahih Muslim 583c) that Zikr was a common practice after obligatory prayers during the time of the Prophet (SAW).

مراجع:

  • اللہ تعالی نے اپنی کتاب (قرآن 7:205) میں ایک عام قسم کا ذکر مقرر کیا ہے، جو ہم سب کے لئے اس کی یاد میں بلکل کھل کر بلایا گیا ہے۔
  • حدیث (سنن ابن ماجہ 3790) میں نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے “اللہ کی یاد کرنا” کو بہترین عمل بیان کیا۔
  • حضرت ابن عباس کی روایت کے مطابق (صحیح مسلم 583c)، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں فرائض نماز کے بعد ذکر کا عام عمل تھا۔

How:

Physical Actions:

  1. To recite within oneself, without any sound, “La Ilaaha,” as you exhale.
  2. To recite within oneself again, without any sound, “Illallah,” as you inhale.

جسمی عمل:

  • ۱۔ دِل ہی دِل میں، بغیر کوئی آواز کِیے، ”لَا اِلہ“ پڑھنا، سانس باہر نکالتے ہوئے۔
  • ۲۔ دِل ہی دِل میں، بغیر کوئی آواز کِیے، ”اِلّا اللہ“ پڑھنا، سانس اندر لیتے ہوئے۔

The only thing that we (my Sisters and Brothers) have to keep in mind is not to change our breathing patterns for any reason. Neither to slow it down nor to speed it up to match the words. But instead, to breathe normally while practicing Pass-e-Anfaas.

ایک چیز جو ہمیں (میری بہنو اور میرے بھائیو) یاد رکھنی ہے وہ یہ کہ ہم نے کسی بھی صورت ہمارے سانس لینے کے انداز کو تبدیل نہیں کرنا ہے۔ الفاظ کو ملانے کی خاطر نہ ہی ہمیں سانس لینے کا عمل آہستہ کرنا ہے اور نہ ہی تیز۔ اس کے برعکس، پاسِ اَنفاس کی مشق کرتے وقت آرام سے سانس لینا ہے۔

Side Note: If the breathing cycle and the internal recitations are out of sync, try to slow down or speed up the recitation if you must, instead of changing the breathing. It is imperative not to play around with your natural, normal breathing rhythm.

سائیڈ نوٹ: اگر سانس لینے کا عمل اور تلاوت کے مابین مطابقت نہ رہے، تو سانس لینے کے عمل میں تبدیلی کی بجائے تلاوت کو آہستہ یا تیز کرنے کی کوشش کریں۔ یہ بہت ضروری ہے کہ آپ سانس لینے کے اپنے قدرتی اور عمومی متوازن کے ساتھ نہ کھیلیں۔

Contemplative Actions:

This was the physical aspect of this Zikr (recitation). There is a complementary Fikr (contemplation) aspect as well. And that is to be conscious that you are in God’s (Sarkar’s) Presence and that He’s watching you. This is the same concept that we focus on when offering Salat. We try to pray as if we see our Creator and are in His Presence. Otherwise, we know that at least, He sees us.

تفکری عمل:

یہ اِس ذکر (تلاوت) کا جسمانی پہلو ہے۔ اس ذکر کا ایک تکمیلی پہلو فکر (تَفَکُّر) بھی ہے۔ اور وہ ہے باخبر رہنا ہے، کہ آپ کے سامنے اللہ (سرکار) موجود ہیں اور وہ آپ کو دیکھ رہے ہیں۔ یہ بالکل ویسا ہی خیال ہے جیسا کہ ہم نماز پڑھتے وقت توجہ کرتے ہیں۔ ہم ایسے نماز پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جیسے ہم اپنے خالق کو دیکھ رہے ہیں اور اُس کی موجودگی میں کھڑے ہیں۔ بصورت دیگر، ہم کم از کم یہ یقین کرتے ہیں کہ وہ ہمیں دیکھ رہا ہے۔

One may notice that the above Practice begins with exhaling, not inhaling. Normally, people refer to the breathing cycle as “Inhale and Exhale,” so why are we sounding backward here? The reason is twofold:

آپ کو شاید لگے کے مندرجہ بالا مشق سانس باہر نکالنے سے شروع ہوتی ہے، سانس اندر لینے سے نہیں۔ عام طور پر، لوگ سانس لینے کے عمل کو ”سانس اندر لینا اور سانس باہر نکالنا“ سمجھتے ہیں، تو ہم یہاں اس کے اُلٹ کیوں چل رہے ہیں؟ اس کی دو وجوہات ہیں:

1. The breathing out of “La Ilaaha” signifies getting rid of all those attachments that one has turned into Deities (self-created false Gods). So if done correctly, while exhaling, the state of the Heart declares, “There Is No God.” And while breathing in, “Illallah” signifies the welcoming, taking in “(Exclusively) Allah,” devoid of anything near or dear to us that can ever take His Place in our Hearts. Needless to point out, we are not referring to the physical heart but our Spiritual Center of Love.

۱۔ سانس باہر نکالتے ہوئے ”لَا اِلہ“ پڑھنا ان تمام وابستگیوں سے چھٹکارا پانے کی علامت ہے جنہیں لوگوں نے دیوتائوں (خود ساختہ بنائے ہوئے جھوٹے خدا) میں بدل دیا ہے۔ لہذا، اگر سانس باہر نکالتے ہوئے یہ عمل درست طریقے سے کیا جائے، تو حالتِ دل یہ اقرار کرتی ہے کہ، ”کوئی خدا موجود نہیں“۔ اور سانس اندر لیتے ہوئے ”اِلّا اللہ“ پڑھنا ”ماسوائے اللہ کے“ اقرار کرنے کی استقبالیہ علامت ہے، یعنی کے ہماری ہر قریبی یا عزیز چیز جو کہ ہمارے دلوں میں اُس کی جگہ لے سکتی ہے، اللہ تعالیٰ اس سے بری ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہم جسمانی دل کا نہیں بلکہ ہمارے روحانی پیار کے مرکز کا حوالہ دے رہے ہیں۔

2. Another reason for this is that we are born with air already within our body fluids and organs, primarily lungs. This was also the case with Hazrat Adam (AS). When Allah (SWT) breathed his own Divine Spirit into the body of Hazrat Adam (AS) (Quran 15:29), and it came to life, the first thing that occurred was a sneeze, an exhale, when Hazrat Adam (AS) praised Allah Almighty, “Alhamdulillah” (Praise be to Allah) followed by inhalation. Please note that the sneeze (exhalation) came before the inhalation because the process of taking in the breath had already been performed by Allah (SWT).

۲۔ اس کی ایک دوسری وجہ یہ ہے کہ جب ہم پیدا ہوتے ہیں تو ہمارے جسمانی سیال اور اعضاء، بالخصوص پھیپھڑوں میں ہوا پہلے ہی موجود ہے۔ حضرت آدم عليه السلام کا واقعہ بھی ایسا ہی تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عليه السلام کے جسم میں اپنی الہی روح پهونکی (القرآن ۱۵:۲۹)، اور وہ زندہ ہوگئے، تو جو چیز سب سے پہلے ہوئی وہ چھینک تھی، سانس کا باہر نکلنا، اور جب حضرت آدم عليه السلام نے اللہ تعالیٰ کی حمد پڑھتے ہوئے ”الحمد للہ“ (تمام تعریفیں اللہ کے لِیے ہیں) پڑھا، تو اس کے بعد سانس اندر لیا۔ براہِ کرم اس چیز پر دھیان دیں کہ چھینک (سانس باہر نکالنا)، سانس اندر لینے سے پہلے آئی کیونکہ سانس لینے کا عمل اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی انجام دے دیا۔

Above, we’ve covered in some detail the importance of the order of the breathing cycle. My Brothers and Sisters may be wondering why such emphasis is being placed on a natural, normal process that we are familiar with. Although a physical phenomenon, the order of the breathing cycle has a great spiritual significance in the context of the Zikr-e-Pass-e-Anfass.

مندرجہ بالا میں ہم نے سانس لینے کے عمل کی ترتیب کی اہمیت پر تفصیل سے بات کی ہے۔ میرے پیارے بھائی اور بہنیں گمان کر رہے ہوں گے کہ ایک قدرتی اور عمومی عمل، جس سے ہم واقف ہیں، اُس پر اتنا زور کیوں دیا جا رہا ہے۔ اگرچہ یہ جسمانی رجحان ہے، لیکن ذکر پاسِ اَنفاس کے تناظر میں سانس لینے کے سلسلے کو ایک انتہائی عظیم روحانی اہمیت حاصل ہے۔

So here is the additional important reason for understanding the prescribed way of practicing Zikr-e-Pass-e-Anfass.

ذکر پاسِ اَنفاس کی مشق کو کرنے کے مقرر کردہ طریقے کو سمجھنے کی ایک اور وجہ مندرجہ ذیل ہے:

3. You may have heard or read about Sarkar (RA) mentioning the phrase “Nafi-wa-Asbaat” or just “Nafi Asbaat” in short. What this means is that the Zikr starts with Nafi (Negation). And is then followed by Asbaat (Affirmation). As we recite “La Ilaaha,” our focus is on Nafi, negating all that is devoid of Allah (SWT). In the same way, when we recite “Illallah,” we enter the second phase, Asbaat, affirming that Allah (SWT) alone, the One and Only, is in our Hearts. Consider the analogy, without expelling any polluted air within our lungs, we cannot breathe in fresh life-bearing air.

۳۔ آپ نے شاید سرکارؒ کو ”نفی وَ اَثبات“ یا محض ”نفی اَثبات“ کا ذکر کرتے ہوئے سُنا یا پڑھا ہوگا۔ اس کا معنیٰ یہ ہے کہ ذکر کا آغاز نفی سے ہوتا ہے۔ اور پھر اس کے بعد میں اثبات آتا ہے۔ جب ہم ”لَا اِلہ“ پڑھتے ہیں، تب ہماری توجہ کا مرکز نفی ہوتا ہے، اُن تمام چیزوں کی نفی جو اللہ تعالیٰ سے خالی ہیں۔ بالکل اسی طرح، جب ہم ”اِلّا اللہ“ پڑھتے ہیں، تو ہم دوسرے مرحلے یعنی اثبات میں داخل ہو جاتے ہیں، جس میں ہم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اللہ ایک ہے، وہ واحد ہے اور اس کے علاوہ کوئی نہیں۔ اس مشابہت پر دھیان دیں کہ ہم ہمارے پھیپھڑوں سے آلودہ ہوا کو نکالے بغیر تازہ زندگی بخش ہوا کو اندر نہیں لے جاسکتے۔

It is essential to understand that these apparently symbolic gestures have very deep roots. We cannot have goodness enter into our life, without getting rid of already existing toxicity. This is equally true for all: the body, mind, and spirit.

اس بات کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ یہ بظاہر تو علامتی اشارے ہیں، لیکن ان کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ ہم اپنے اندر پہلے سے موجود زہر آلودگی سے چھٹکارا حاصل کیے بغیر، اپنی زندگیوں میں اچھائی نہیں لا سکتے۔ یہ جسم، دماغ، اور روح سب کے لِیے یکساں طور پر سچ ہے۔

Read More

Advice Against Being Sanctimonious

Reference: This is a simplified version of Letter #150 from Nahj-ul-Balagha.

حوالہ: یہ نہج البلاغہ کے خط نمبر 150 کا مختصر شدہ ارائے ہے۔

Note: This advice is useful for all Muslims; however, it is extremely more potent for As-Haab-e-Tasawwuf today. As with most of Hazrat Ali (RZ)’s writings and speeches, this too is short and direct to the point. It may require multiple readings and a clear understanding each time to fully grasp what is being advised.

نوٹ: یہ مشورہ تمام مسلمانوں کے لئے مفید ہے، لیکن آج کے دن اصحاب تصوف کے لئے اس کی اہمیت زیادہ بڑھتی ہے۔ حضرت علیؓ کے اکثر تحریر اور تقریرات کی طرح، یہ بھی مختصر اور موضوع پر منتقل ہے۔ اس کو پوری طرح سمجھنے کے لئے ممکن ہے کہ کئی مرتبے پڑھنے اور ہر بار واضح فہم کی ضرورت ہو تاکہ سمجھنے میں پوری کامیابی حاصل کی جا سکے۔


The Advice:

نَصِیحَت:

When a person requested advice and counsel from Hazrat Ali ibn Abu Talib (RZ). To this, His Eminence Maula Ali Mushkil Kusha (RZ) replied,

ایک شخص نے حضرت علی ابن ابو طالبؓ سے پند و موعظت کی درخواست کی۔ تو آپ، آں حضرت مولا علی مشکل کشاؓ نے فرمایا:

Do not be like someone who hopes for happiness in the afterlife without taking any action, delaying repentance by indulging in desires. They may speak like ascetics in this world, but their actions contradict their words. If they receive something, they’re not satisfied; if denied, they’re not content. They’re ungrateful for what they have and crave more. They advise against wrongdoing in others but not in themselves. They preach what they don’t practice, love the virtuous but don’t emulate them, and hate vice but engage in it.

تم کو ان لوگوں میں سے نہ ہو نا چاہیئے کہ جو عمل کے بغیر حسن انجام کی امید رکھتے ہیں اور اُمیدیں بڑھا کر تو بہ کو تاخیر میں ڈال دیتے ہیں، جو دُنیا کے بارے میں زاہدوں کی سی باتیں کرتے ہیں مگر ان کے اعمال دنیا طلبوں کے سے ہوتے ہیں۔ اگر دنیا انھیں ملے تو وہ سیر نہیں ہوتے اور اگر نہ ملے تو قناعت نہیں کرتے ، جو انھیں ملا ہے اس پر شکر سے قاصر رہتے ہیں اور جو بچ رہا اس کے اضافہ کے خواہشمند رہتے ہیں۔ دوسروں کو منع کرتے ہیں اور خود باز نہیں آتے اور دوسروں کو حکم دیتے ہیں ایسی باتوں کا جنھیں خود بجا نہیں لاتے۔ نیکوں کو دوست رکھتے ہیں، مگر ان کے سے اعمال نہیں کرتے اور گنہگاروں سے نفرت و عناد رکھتے ہیں، حالانکہ وہ خود انہی میں داخل ہیں اپنے گناہوں کی کثرت کے باعث موت کو بُرا سمجھتے ہیں ، مگر جن گناہوں کی وجہ سے موت کو ناپسند کرتے ہیں، انہی پر قائم ہیں۔

They fear death due to their sins but cling to what makes them afraid of death. When sick, they feel ashamed; when healthy, they indulge in leisure. Upon recovery, they become conceited; in affliction, they lose hope. When in distress, they pray fervently, but in ease, they turn away. They’re controlled by their desires and lack self-control. They fear minor sins in others but expect more reward for their own deeds. Wealth makes them arrogant. Poverty makes them despair. They’re brief in good deeds but excessive in begging. They quickly commit sins but delay repentance. Hardships make them exceed the bounds of the Islamic community. They preach but don’t practice what they preach, talk a lot but act little, value transient gains over lasting ones, and fear death but take no precautions.

اگر بیمار پڑتے ہیں تو پشیمان ہوتے ہیں اور تندرست ہوتے ہیں تو مطمئن ہو کر کھیل کود میں پڑ جاتے ہیں ۔ جب بیماری سے چھٹکارا پاتے ہیں تو اترانے لگتے ہیں اور مبتلا ہوتے ہیں تو ان پر مایوسی چھا جاتی ہے۔ جب کسی سختی و ابتلا میں پڑتے ہیں تو لا چار و بے بس ہو کر دعائیں مانگتے ہیں اور جب فراخ دستی نصیب ہوتی ہے تو فریب میں مبتلا ہو کر منہ پھیر لیتے ہیں۔ ان کا نفس خیالی باتوں پر انھیں قابو میں لے آتا ہے اور وہ یقینی باتوں پر اسے نہیں دبا لیتے۔ دوسروں کے لیے ان کے گناہ سے زیادہ خطرہ محسوس کرتے ہیں اور اپنے لیے اپنے اعمال سے زیادہ جزا کے متوقع رہتے ہیں۔ اگر مالدار ہو جاتے ہیں تو اترانے لگتے ہیں اور فتنہ و گمراہی میں پڑ جاتے ہیں اور اگر فقیر ہو جاتے ہیں تو ناامید ہو جاتے ہیں اور سستی کرنے لگتے ہیں۔ جب عمل کرتے ہیں تو اس میں سُستی کرنے لگتے ہیں اور جب مانگنے پر آتے ہیں تو اصرار میں حد سے بڑھ جاتے ہیں، اگر ان پر خواہش نفسانی کا غلبہ ہوتا ہے تو گناہ جلد سے جلد کرتے ہیں اور تو بہ کو تعویق میں ڈالتے رہتے ہیں، اگر کوئی مصیبت لاحق ہوتی ہے تو جماعت اسلامی کے خصوصی امتیازات سے الگ ہو جاتے ہیں، عبرت کے واقعات بیان کرتے ہیں مگر خود عبرت حاصل نہیں کرتے اور وعظ و نصیحت میں زور باندھتے ہیں مگر خود اس نصیحت کا اثر نہیں لیتے۔ چنانچہ وہ بات کرنے میں تو اونچے رہتے ہیں عمل میں کم ہی کم رہتے ہیں۔ فانی چیزوں میں نفسی نفسی کرتے ہیں اور باقی رہنے والی چیزوں میں سہل انگاری سے کام لیتے ہیں۔ وہ نفع کو نقصان اور نقصان کو نفع خیال کرتے ہیں۔ موت سے ڈرتے ہیں مگر فرصت کا موقع نکل جانے سے پہلے اعمال میں جلدی نہیں کرتے۔

They see others’ sins as major but their own as minor. Their own deeds for Allah seem significant, but they consider the same actions by others insignificant. They reprimand others but flatter themselves. They prefer socializing with the wealthy over remembering Allah with the poor. They pass judgments for their own interests and not for others’ benefit. They guide others but misguide themselves. They are obeyed but disobey Allah. They seek their own rights but neglect their responsibilities to others. They fear people more than Allah in public matters.

دوسرے کے ایسے گناہ کو بہت بڑا سمجھتے ہیں جس سے بڑے گناہ کو خود اپنے لیے چھوٹا خیال کرتے ہیں اور اپنی ایسی اطاعت کو زیادہ سمجھتے ہیں، جسے دوسرے سے کم سمجھتے ہیں۔ لہذاوہ لوگوں پر معترض ہوتے ہیں اور اپنے نفس کی چکنی چپڑی باتوں سے تعریف کرتے ہیں۔ دولتمندوں کے ساتھ طرب و نشاط میں مشغول رہنا انہیں غریبوں کے ساتھ محفل ذکر میں شرکت سے زیادہ پسند ہے ۔ اپنے حق میں دوسرے کے خلاف حکم لگاتے ہیں، لیکن کبھی یہ نہیں کرتے کہ دوسرے کے حق میں اپنے خلاف حکم لگائیں۔ اوروں کو ہدایت کرتے ہیں اپنے کو گمراہی کی راہ پر لگاتے ہیں، وہ اطاعت لیتے ہیں اور خود نا فرمانی کرتے ہیں اور حق پورا پورا وصول کر لیتے ہیں، مگر خود ادا نہیں کرتے۔ وہ اپنے پروردگار کو نظر انداز کر کے مخلوق سے خوف کھاتے ہیں اور مخلوقات کے بارے میں اپنے پروردگار سے نہیں ڈرتے۔

Read More

Hisar Prayer (Fortification Prayer)

Who:

It is highly recommended for everyone in the Silsila and beyond to all the Muslim Ummah.

:کون

یہ دعا سلسلہ میں موجود سبھی لوگوں کے ساتھ ساتھ تمام امتِ مسلمہ کے لِیے تجویز کی گئی ہے۔

What:

Sarkar (RA) has explained the benefits of fortifying oneself with a recommended prayer recipe by Prophet Muhammad (SAW). It’s not just something that Sarkar (RA) has always motivated everyone in the Silsila to do daily before bedtime, but it’s something that we’ve seen Sarkar (RA) do for most of his adult life.

Essentially, it was termed Mu’awwadhat in Arabic in the days of Prophet Muhammad (SAW). We can figuratively think of it as Muhafizzaat in Urdu. It is by reading Surah al-Falaq and Surah an-Naas combination, read one after the other.

:کیا

سرکارؒ نے خود کو حصار کرنے کے فوائد کو حضرت محمد ﷺ کی تجویز کردہ دعا کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ یہ محض ایسی دعا نہیں ہے کہ جسے سرکارؒ نے سلسلہ میں سبھی لوگوں کو روزانہ نیند سے پہلے پڑھنے کی ترغیب دی ہے، لیکن یہ ایک ایسی دعا ہے کہ جسے ہم نے سرکارؒ کو اپنی جوانی کے بیشتر حصے میں پڑھتے دیکھا ہے۔

بنیادی طور پر، حضرت محمد ﷺ کے زمانے میں اس دعا کو عربی میں معوذات کہا جاتا تھا۔ ہم اسے علامتی طور پر اُردو میں محافظت سمجھ سکتے ہیں۔ یہ دعا سورہ الفلق اور سورہ الناس کا مجموعہ ہے جسے یکے بعد دیگرے پڑھا جاتا ہے۔

Where

It can practically be done anywhere sanitary. So doing it sitting on a chair, on a sofa, on the bed, and even in a vehicle is also fine. Just refrain from doing any prayers (other than bathroom prayers) in unclean places like bathrooms or near swampy ground in the lawns, etc.

:کہاں

عملی طور پر یہ دعا کسی بھی پاک و صاف جگہ پر پڑھی جا سکتی ہے۔ لہذا آپ یہ دعا کرسی پر، صوفہ پر، بستر پر، حتی کہ اپنی گاڑی میں بیٹھے ہوئے بھی پڑھ سکتے ہیں۔ یہ دعا یا کوئی بھی دعا (بیت الخلاء کی دعا کے علاوہ) غلیظ جگہوں جیسا کہ بیت الخلاء یا کیچڑ و گند والی زمین وغیرہ کے قریب پڑھنے سے گریز کریں۔

When:

Sarkar (RA) has always done before at night before sleep. However, it can be done anytime in a span of 24 hours. For those who work in the day, it can easily be done at any time before going to sleep so that one can remain punctual with these prayers.

:کب

سرکارؒ نے ہمیشہ یہ مشق رات میں نیند سے پہلے فرمائی۔ تاہم، یہ ۲۴ گھنٹوں کے دَورانیے میں کبھی بھی کی جاسکتی ہے۔ وہ لوگ جو دن میں کام کرتے ہیں، تو وہ رات میں سونے سے پہلے کسی بھی وقت آرام سے پابندی کے ساتھ یہ مشق کر سکتے ہیں۔

Why:

It is recommended in several Ahadith, including Sahih al-Bukhari narrated by Hazrat Bibi Aisha (RZ), Jami at-Tirmidhi, Riyad as-Salihin, and Sunan an-Nisai, among others. It is said to create divine protection from Allah (SWT) to ward off all types of malicious dangers. These can be in the form of Evil Whispers, Enemosity from Men and Jinn, Evil Eye, Incantations, Sickness, Disease, and any other type of danger that can be in the form of an attack on a person.

:کیوں

اس دعا کو کافی احادیث میں تجویز کیا گیا ہے، جس میں صحیح البخاری جو کہ حضرت بی بی عائشہؓ نے روایت کی ہے، جامع الترمذی، ریاض الصالحین، اور سُنن نسائی وغیرہ شامل ہیں۔ روایات ہیں کہ یہ دعا بدنیت پر مبنی تمام قسم کے خطرات سے حفاظت کے لِیے الہی تحفظ فراہم کرتی ہے۔ یہ شیطانی وسوسوں، انسان و جنات کی دشمنی، نظر بد، جادو ٹونا، علالت، مرض اور کسی دوسرے قسم کے خطرات کی شکل میں ہو سکتے ہیں جو کہ ایک انسان پر حملہ کی صورت ہوں۔

How:

Sarkar (RA) has taught both ways at different times. However, method #1 was taught most often, but method #2 is also fine.

:کیسے

سرکارؒ نے بعض جگہوں پر دونوں طریقے سکھائے ہیں۔ تاہم، پہلا طریقہ انہوں نے اکثر تجویز کیا ہے، لیکن دوسرا طریقہ بھی ٹھیک ہے۔


Method #1 (Most Often Prescribed):

طریقہ نمبر ۱ (جو کہ بار بار تجویز کیا گیا ہے):

----Darood Shareef:
    Allah Humma Sallay Ala, Saiyyidna, Wa Maulana, Muhammadin;
    Wa-Alaa Aalay, Saiyyidna, Wa Maulana, Muhammadin, Wabarik Wassallam

—-درود شریف:

اَلَّلھُمَّ صَلِّ عَلٰى سَیَّدْنَا وَ مَوْلٰنَا مُحَمَّدٍ
وَّ عَلٰى آلِ سیدناومولنامحمدوبارك وَسَلِّمْ

----Surah Falaq: 
    Qul A'uzoo Bi Rabbil-Falaq
    Min Sharri Ma Khalaq
    Wa Min Sharri Ghasiqin Iza Waqab
    Wa Min Sharrin-Naffaa-Saati Fil 'Uqad
    Wa Min Shar Ri Haasidin Iza Hasad

—-سورہ الفلق:

قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ
مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ
وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ
وَمِنْ شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِى الْعُقَدِ
وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ

----Surah Naas:
    Qul A'uzu Birabbin Naas
    Malikin Naas
    Ilaahin Naas
    Min Sharril Was Waasil Khannaas
    Al Lazee Yuwas Wisu Fee Sudoorin Naas
    Minal Jinnati Wan Naas

—-سورہ الناس:

قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ
مَلِكِ النَّاسِ
اِلٰـهِ النَّاسِ
مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ
اَلَّـذِىْ يُوَسْوِسُ فِىْ صُدُوْرِ النَّاسِ
مِنَ الْجِنَّـةِ وَالنَّاسِ

----Darood Shareef:
    Allah Humma Sallay Ala, Saiyyidna, Wa Maulana, Muhammadin;
    Wa-Alaa Aalay, Saiyyidna, Wa Maulana, Muhammadin, Wabarik Wassallam

—-درود شریف:

اَلَّلھُمَّ صَلِّ عَلٰى سَیَّدْنَا وَ مَوْلٰنَا مُحَمَّدٍ
وَّ عَلٰى آلِ سیدناومولنامحمدوبارك وَسَلِّمْ

----Apply:
    Blow on both your hands, and rub your hands over your entire body as best as you can.

—-پھر یہ کام کریں:

دونوں ہاتھوں پر پھونک ماریں، اور ہاتھوں کو جتنا ممکن ہوسکے اپنے جسم پر مسلیں۔

This completes one single “set” of the prayer. Do this set from Darood Shareef to Blowing two more times, completing 3 full sets, and you’re done!

یہ سب عمل کرنے سے دعا کا ایک واحد “سیٹ” مکمل ہوجاتا ہے۔ اب یہ عمل، درود شریف سے ہاتھوں پر پھونک مار کر جسم پر مسلنے تک دو بار دہرائیں، جس سے آپ یہ عمل تین بار مکمل کر لیں گے؛ بس یہی مشق ہے!


Method #2 (Valid To a Lesser Degree):

:طریقہ نمبر ۲ (جس کی مقبولیت کم ہے)

Darood Shareef:

Allah Humma Sallay Ala, Saiyyidna, Wa Maulana, Muhammadin;
Wa-Alaa Aalay, Saiyyidna, Wa Maulana, Muhammadin, Wabarik Wassallam

:درود شریف

اَلَّلھُمَّ صَلِّ عَلٰى سَیَّدْنَا وَ مَوْلٰنَا مُحَمَّدٍ
وَّ عَلٰى آلِ سیدناومولنامحمدوبارك وَسَلِّمْ

----Surah Falaq: 
    Qul A'uzoo Bi Rabbil-Falaq
    Min Sharri Ma Khalaq
    Wa Min Sharri Ghasiqin Iza Waqab
    Wa Min Sharrin-Naffaa-Saati Fil 'Uqad
    Wa Min Shar Ri Haasidin Iza Hasad

—-سورہ الفلق:

قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ
مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ
وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ
وَمِنْ شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِى الْعُقَدِ
وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ

----Surah Naas:
    Qul A'uzu Birabbin Naas
    Malikin Naas
    Ilaahin Naas
    Min Sharril Was Waasil Khannaas
    Al Lazee Yuwas Wisu Fee Sudoorin Naas
    Minal Jinnati Wan Naas

—-سورہ الناس:

قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ
مَلِكِ النَّاسِ
اِلٰـهِ النَّاسِ
مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ
اَلَّـذِىْ يُوَسْوِسُ فِىْ صُدُوْرِ النَّاسِ
مِنَ الْجِنَّـةِ وَالنَّاسِ

----Apply:
    Blow on both your hands, and rub your hands over your entire body as best as you can. This completes one single "set" of the prayer. Do this set of both Surah two more times, completing 3 full sets.

—-پھر یہ کام کریں:

دونوں ہاتھوں پر پھونک ماریں، اور ہاتھوں کو جتنا ممکن ہوسکے اپنے جسم پر مسلیں۔ یہ عمل کرنے سے دعا کا ایک واحد “سیٹ” مکمل ہوجاتا ہے۔ اب یہ عمل دونوں سورتوں کو دو بار دہرانے کے ساتھ کریں، جس سے آپ ۳ مکمل سیٹ مکمل کر لیں گے۔

Darood Shareef:

Allah Humma Sallay Ala, Saiyyidna, Wa Maulana, Muhammadin;
Wa-Alaa Aalay, Saiyyidna, Wa Maulana, Muhammadin, Wabarik Wassallam

درود شریف:

اَلَّلھُمَّ صَلِّ عَلٰى سَیَّدْنَا وَ مَوْلٰنَا مُحَمَّدٍ
وَّ عَلٰى آلِ سیدناومولنامحمدوبارك وَسَلِّمْ

(Note: This method only has 1 Durood Shareef at the beginning and another one at the end.)

(نوٹ: اس عمل میں درود شریف ایک بار شروع میں اور ایک بار آخر میں پڑھا جاتا ہے۔)

Read More