Practicing Paas-e-Anfaas
Who:
Sarkar (RA) has numerous times instructed all of us in the Silsila to practice as much as possible. However, it is not limited to our Silsila or Sufis in general. It will be helpful for everyone and can be done by anyone.
کون:
سرکارؒ نے ہم سب کو سلسلے میں بہت بار اس کی ہدایت فرمائی ہے۔ تاہم، یہ ہمارے سلسلے، یا عام طور پر صوفیوں تک مخصوص نہیں ہے۔ یہ سب کے لئے مفید ہوگی اور کسی بھی شخص کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔
What:
When asked what Paas-e-Anfaas meant, Sarkar (RA) replied, “Nafas Ki Paasbani” (Guarding the Breath).
کیا:
جب پوچھا گیا کہ پاسِ اَنفاس کا کیا مطلب ہے، تو سرکارؒ نے جواب دیا، ”نَفس کی پاسبانی“ (سانس کی حفاظت کرنا)۔
Where:
Usually, prayers are only done in clean areas and environments. However, this Zikr takes the form known as Zikr-e-Khafi or Zikr-e-Qalbi. This essentially means that the recitation is done internally without using words or sounds. For this reason, it can be done anywhere an at any time.
کہاں:
عام طور پر، دعائیں صاف جگہوں اور ماحولوں میں کی جاتی ہیں۔ تاہم، یہ ذکر، زکر خفی، یا ذکر قلبی کی صورت اختیار کرتا ہے۔ یعنی اِسکی تلاوت کو بغیر کسی الفاظ، یا آواز کے، اندر ہی اندر سے کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے یہ کہیں بھی اور کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے۔
When:
It can be done at any time. In fact, one would try their best to keep this Zikr going for as long as possible, as often as possible.
کب:
یہ کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے۔ درحقیقت، ہر ایک اس ذکر کو جتنی دیر تک اور جتنی بار ممکن ہو، جاری رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
Why:
Paas-e-Anfaas, like most other Azkaar, is done in remembrance and devotion. Primarily, it is done to maintain a strong connection with Allah (SWT). In this case, it involves the repetitive recitation and meditation with breathing on specific phrase. The purpose of this Zikr is multifaceted; it serves as a means of seeking spiritual purification, inner peace, to keep oneself occupied in remembrance of the Creator, and a heightened sense of consciousness of the Divine Presence. By engaging in Zikr, we aim to cultivate a closer relationship with our Creator, increase mindfulness of our faith, and draw strength and tranquility from our devotion, ultimately leading to a deeper understanding of our purpose in life and a sense of spiritual fulfillment.
کیوں:
پاسِ انفاس، جیسا کہ زیادہ تر دوسرے أذكار کی طرح، اللہ کی یاد اور بندگی کے لئے کیا جاتا ہے۔ پہلی بات تو یہ، کہ اللہ کے ساتھ مضبوط تعلق قائم رکھنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر، ایک مخصوص جملے کی تکرار کی تلاوت اور مراقبہ، سانس لینے کے ساتھ شامل ہے۔ اس ذکر کا مقصد متعدد ہوتا ہے؛ یہ روحانی پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ بنتا ہے، اندرونی امن کی بنیاد رکھتا ہے، خالق کی یاد میں خود کو مصروف رکھنے کا ذریعہ بنتا ہے، اور الہی موجودگی کے شعور کو بڑھاتا ہے۔ ذکر میں شامل ہو کر ہمارا مقصد ہے کہ ہم اپنے خالق کے قریبی تعلق کو پیدا کریں، اپنے ایمان کی ذہانت میں اضافہ کریں، اور اس یاد کے بدولت طمانی اور آرام حاصل کریں، جس سے آخر کار ہمیں زندگی کا مقصد اور روحانی تسلی کا احساس حاصل ہوتا ہے۔
References:
- Allah (SWT) has prescribed a general form of Zikr in his Book (Quran 7:205), which openly invokes his remembrance for us all.
- In Hadith (Sunan Ibn Majah 3790), Prophet Muhammad described “Remembering Allah” as the best deed.
- The Hadith reported by Hazrat Ibn Abbas mentions (Sahih Muslim 583c) that Zikr was a common practice after obligatory prayers during the time of the Prophet (SAW).
مراجع:
- اللہ تعالی نے اپنی کتاب (قرآن 7:205) میں ایک عام قسم کا ذکر مقرر کیا ہے، جو ہم سب کے لئے اس کی یاد میں بلکل کھل کر بلایا گیا ہے۔
- حدیث (سنن ابن ماجہ 3790) میں نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے “اللہ کی یاد کرنا” کو بہترین عمل بیان کیا۔
- حضرت ابن عباس کی روایت کے مطابق (صحیح مسلم 583c)، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں فرائض نماز کے بعد ذکر کا عام عمل تھا۔
How:
Physical Actions:
- To recite within oneself, without any sound, “La Ilaaha,” as you exhale.
- To recite within oneself again, without any sound, “Illallah,” as you inhale.
جسمی عمل:
- ۱۔ دِل ہی دِل میں، بغیر کوئی آواز کِیے، ”لَا اِلہ“ پڑھنا، سانس باہر نکالتے ہوئے۔
- ۲۔ دِل ہی دِل میں، بغیر کوئی آواز کِیے، ”اِلّا اللہ“ پڑھنا، سانس اندر لیتے ہوئے۔
The only thing that we (my Sisters and Brothers) have to keep in mind is not to change our breathing patterns for any reason. Neither to slow it down nor to speed it up to match the words. But instead, to breathe normally while practicing Pass-e-Anfaas.
ایک چیز جو ہمیں (میری بہنو اور میرے بھائیو) یاد رکھنی ہے وہ یہ کہ ہم نے کسی بھی صورت ہمارے سانس لینے کے انداز کو تبدیل نہیں کرنا ہے۔ الفاظ کو ملانے کی خاطر نہ ہی ہمیں سانس لینے کا عمل آہستہ کرنا ہے اور نہ ہی تیز۔ اس کے برعکس، پاسِ اَنفاس کی مشق کرتے وقت آرام سے سانس لینا ہے۔
Side Note: If the breathing cycle and the internal recitations are out of sync, try to slow down or speed up the recitation if you must, instead of changing the breathing. It is imperative not to play around with your natural, normal breathing rhythm.
سائیڈ نوٹ: اگر سانس لینے کا عمل اور تلاوت کے مابین مطابقت نہ رہے، تو سانس لینے کے عمل میں تبدیلی کی بجائے تلاوت کو آہستہ یا تیز کرنے کی کوشش کریں۔ یہ بہت ضروری ہے کہ آپ سانس لینے کے اپنے قدرتی اور عمومی متوازن کے ساتھ نہ کھیلیں۔
Contemplative Actions:
This was the physical aspect of this Zikr (recitation). There is a complementary Fikr (contemplation) aspect as well. And that is to be conscious that you are in God’s (Sarkar’s) Presence and that He’s watching you. This is the same concept that we focus on when offering Salat. We try to pray as if we see our Creator and are in His Presence. Otherwise, we know that at least, He sees us.
تفکری عمل:
یہ اِس ذکر (تلاوت) کا جسمانی پہلو ہے۔ اس ذکر کا ایک تکمیلی پہلو فکر (تَفَکُّر) بھی ہے۔ اور وہ ہے باخبر رہنا ہے، کہ آپ کے سامنے اللہ (سرکار) موجود ہیں اور وہ آپ کو دیکھ رہے ہیں۔ یہ بالکل ویسا ہی خیال ہے جیسا کہ ہم نماز پڑھتے وقت توجہ کرتے ہیں۔ ہم ایسے نماز پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جیسے ہم اپنے خالق کو دیکھ رہے ہیں اور اُس کی موجودگی میں کھڑے ہیں۔ بصورت دیگر، ہم کم از کم یہ یقین کرتے ہیں کہ وہ ہمیں دیکھ رہا ہے۔
One may notice that the above Practice begins with exhaling, not inhaling. Normally, people refer to the breathing cycle as “Inhale and Exhale,” so why are we sounding backward here? The reason is twofold:
آپ کو شاید لگے کے مندرجہ بالا مشق سانس باہر نکالنے سے شروع ہوتی ہے، سانس اندر لینے سے نہیں۔ عام طور پر، لوگ سانس لینے کے عمل کو ”سانس اندر لینا اور سانس باہر نکالنا“ سمجھتے ہیں، تو ہم یہاں اس کے اُلٹ کیوں چل رہے ہیں؟ اس کی دو وجوہات ہیں:
1. The breathing out of “La Ilaaha” signifies getting rid of all those attachments that one has turned into Deities (self-created false Gods). So if done correctly, while exhaling, the state of the Heart declares, “There Is No God.” And while breathing in, “Illallah” signifies the welcoming, taking in “(Exclusively) Allah,” devoid of anything near or dear to us that can ever take His Place in our Hearts. Needless to point out, we are not referring to the physical heart but our Spiritual Center of Love.
۱۔ سانس باہر نکالتے ہوئے ”لَا اِلہ“ پڑھنا ان تمام وابستگیوں سے چھٹکارا پانے کی علامت ہے جنہیں لوگوں نے دیوتائوں (خود ساختہ بنائے ہوئے جھوٹے خدا) میں بدل دیا ہے۔ لہذا، اگر سانس باہر نکالتے ہوئے یہ عمل درست طریقے سے کیا جائے، تو حالتِ دل یہ اقرار کرتی ہے کہ، ”کوئی خدا موجود نہیں“۔ اور سانس اندر لیتے ہوئے ”اِلّا اللہ“ پڑھنا ”ماسوائے اللہ کے“ اقرار کرنے کی استقبالیہ علامت ہے، یعنی کے ہماری ہر قریبی یا عزیز چیز جو کہ ہمارے دلوں میں اُس کی جگہ لے سکتی ہے، اللہ تعالیٰ اس سے بری ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہم جسمانی دل کا نہیں بلکہ ہمارے روحانی پیار کے مرکز کا حوالہ دے رہے ہیں۔
2. Another reason for this is that we are born with air already within our body fluids and organs, primarily lungs. This was also the case with Hazrat Adam (AS). When Allah (SWT) breathed his own Divine Spirit into the body of Hazrat Adam (AS) (Quran 15:29), and it came to life, the first thing that occurred was a sneeze, an exhale, when Hazrat Adam (AS) praised Allah Almighty, “Alhamdulillah” (Praise be to Allah) followed by inhalation. Please note that the sneeze (exhalation) came before the inhalation because the process of taking in the breath had already been performed by Allah (SWT).
۲۔ اس کی ایک دوسری وجہ یہ ہے کہ جب ہم پیدا ہوتے ہیں تو ہمارے جسمانی سیال اور اعضاء، بالخصوص پھیپھڑوں میں ہوا پہلے ہی موجود ہے۔ حضرت آدم عليه السلام کا واقعہ بھی ایسا ہی تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عليه السلام کے جسم میں اپنی الہی روح پهونکی (القرآن ۱۵:۲۹)، اور وہ زندہ ہوگئے، تو جو چیز سب سے پہلے ہوئی وہ چھینک تھی، سانس کا باہر نکلنا، اور جب حضرت آدم عليه السلام نے اللہ تعالیٰ کی حمد پڑھتے ہوئے ”الحمد للہ“ (تمام تعریفیں اللہ کے لِیے ہیں) پڑھا، تو اس کے بعد سانس اندر لیا۔ براہِ کرم اس چیز پر دھیان دیں کہ چھینک (سانس باہر نکالنا)، سانس اندر لینے سے پہلے آئی کیونکہ سانس لینے کا عمل اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی انجام دے دیا۔
Above, we’ve covered in some detail the importance of the order of the breathing cycle. My Brothers and Sisters may be wondering why such emphasis is being placed on a natural, normal process that we are familiar with. Although a physical phenomenon, the order of the breathing cycle has a great spiritual significance in the context of the Zikr-e-Pass-e-Anfass.
مندرجہ بالا میں ہم نے سانس لینے کے عمل کی ترتیب کی اہمیت پر تفصیل سے بات کی ہے۔ میرے پیارے بھائی اور بہنیں گمان کر رہے ہوں گے کہ ایک قدرتی اور عمومی عمل، جس سے ہم واقف ہیں، اُس پر اتنا زور کیوں دیا جا رہا ہے۔ اگرچہ یہ جسمانی رجحان ہے، لیکن ذکر پاسِ اَنفاس کے تناظر میں سانس لینے کے سلسلے کو ایک انتہائی عظیم روحانی اہمیت حاصل ہے۔
So here is the additional important reason for understanding the prescribed way of practicing Zikr-e-Pass-e-Anfass.
ذکر پاسِ اَنفاس کی مشق کو کرنے کے مقرر کردہ طریقے کو سمجھنے کی ایک اور وجہ مندرجہ ذیل ہے:
3. You may have heard or read about Sarkar (RA) mentioning the phrase “Nafi-wa-Asbaat” or just “Nafi Asbaat” in short. What this means is that the Zikr starts with Nafi (Negation). And is then followed by Asbaat (Affirmation). As we recite “La Ilaaha,” our focus is on Nafi, negating all that is devoid of Allah (SWT). In the same way, when we recite “Illallah,” we enter the second phase, Asbaat, affirming that Allah (SWT) alone, the One and Only, is in our Hearts. Consider the analogy, without expelling any polluted air within our lungs, we cannot breathe in fresh life-bearing air.
۳۔ آپ نے شاید سرکارؒ کو ”نفی وَ اَثبات“ یا محض ”نفی اَثبات“ کا ذکر کرتے ہوئے سُنا یا پڑھا ہوگا۔ اس کا معنیٰ یہ ہے کہ ذکر کا آغاز نفی سے ہوتا ہے۔ اور پھر اس کے بعد میں اثبات آتا ہے۔ جب ہم ”لَا اِلہ“ پڑھتے ہیں، تب ہماری توجہ کا مرکز نفی ہوتا ہے، اُن تمام چیزوں کی نفی جو اللہ تعالیٰ سے خالی ہیں۔ بالکل اسی طرح، جب ہم ”اِلّا اللہ“ پڑھتے ہیں، تو ہم دوسرے مرحلے یعنی اثبات میں داخل ہو جاتے ہیں، جس میں ہم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اللہ ایک ہے، وہ واحد ہے اور اس کے علاوہ کوئی نہیں۔ اس مشابہت پر دھیان دیں کہ ہم ہمارے پھیپھڑوں سے آلودہ ہوا کو نکالے بغیر تازہ زندگی بخش ہوا کو اندر نہیں لے جاسکتے۔
It is essential to understand that these apparently symbolic gestures have very deep roots. We cannot have goodness enter into our life, without getting rid of already existing toxicity. This is equally true for all: the body, mind, and spirit.
اس بات کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ یہ بظاہر تو علامتی اشارے ہیں، لیکن ان کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ ہم اپنے اندر پہلے سے موجود زہر آلودگی سے چھٹکارا حاصل کیے بغیر، اپنی زندگیوں میں اچھائی نہیں لا سکتے۔ یہ جسم، دماغ، اور روح سب کے لِیے یکساں طور پر سچ ہے۔
Read More