20120505 | Albeyli Mehfil

1.0 Introduction

۱.۰ تعارف

Like all the others, this discourse was divinely inspired and primarily about the Nature of Experience Without Physical Presence. It explained a unique spiritual concept in detail and illustrated it with meaningful examples of the Spiritual Approach compared to Logic. Ways and Means of Worship and a practical approach to life challenges were provided to help guide the Seekers of the Sufi Path.

دیگر تمام خطبوں کی طرح، یہ خطبہ بھی الہامی تھا اور بنیادی طور پر جسمانی موجودگی کے بغیر تجربے کی نوعیت کے بارے میں تھا۔ اس میں ایک منفرد روحانی تصور کی تفصیل سے وضاحت کی گئی اور اس کی وضاحت کے لیے روحانی نقطۂ نظراور منطق کے مابین ایک بامعنی موازنہ  پیش کیا گیا۔ عبادت کے طریقے اور وسائل بیان کیے گئے،اور زندگی کی آزمائشوں کے لیے ایک عملی نقطہ نظر فراہم کیا گیا تاکہ صوفیانہ راستے کے متلاشیوں کی رہنمائی کی جا سکے۔

2.0 Highlights

۲.۰ نمایاں نکات

2.۱ Divine Inspiration

۲.۱ الہامی رہنمائی

For Hazrat Baba Shah Mehmood Yousufi (ra), Allah (swt) conveyed the topic for every discourse through a feeling accompanied by an understanding of the subject matter. The words came from the Divine Source, so there was no need to think and be concerned about what to say and do.

حضرت بابا شاہ محمود یوسفیؒ کے لیے، اللہ (سبحانہ وتعالیٰ) ہر خطبے کا موضوع ایک احساس کے ذریعے منتقل فرماتے تھے، جس کے ساتھ اس موضوع کے بارے میں فہم بھی ہوتا تھا۔ یہ کلمات الہامی مصدر سے آتے تھے، اس لیے یہ سوچنے اور فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی کہ کیا کہنا ہے اور کیا کرنا ہے۔

2.2 Nature of Experience: Without Physical Presence

۲.2 تجربے کی نوعیت: جسمانی موجودگی کے بغیر

By the Grace of Allah Almighty, the Experience (Tajurba) Sarkar Baba Sahib (ra) had was much more vast than his chronological age. He had his own life experience as well as the experiences of all the earlier Holy Elders (Bazurgaan) of his Silsila. All combined for his overall experience. Thus, he possessed an experience of all the happenings since 622 CE (the year of migration of the Prophet (saw) from Mecca to Medina) and even previous to that of the time in Mecca. Subsequently, there was a time in Medina and a return to Mecca.

اللہ تعالیٰ کےفضل و  کرم سے، سرکار بابا صاحبؒ کا تجربہ ان کی عمر کے لحاظ سے کہیں زیادہ وسیع تھا۔ ان کے پاس اپنی ذاتی زندگی کے تجربات کے ساتھ ساتھ اپنے سلسلے کے تمام بزرگانِ دین کے تجربات بھی شامل تھے، جو مل کر ان کے مجموعی تجربے کو تشکیل دیتے تھے۔ اس طرح، ان کے پاس ۶۲۲ء (وہ سال جب نبی اکرم ﷺ کا مکہ سے مدینہ ہجرت کا سفر تھا) سے لے کر اس سے بھی پہلے کے مکہ مکرمہ کے واقعات کے تمام حالات کا تجربہ موجود تھا۔ اس کے بعد مدینہ منورہ کا دور اور پھر مکہ مکرمہ کی طرف واپسی کا وقت بھی ان کے تجربات میں شامل تھا۔

Given this, questions arise as to how Sarkar Baba Sahib (ra) could make such a claim of experience of more than 14 Centuries? How could this have happened when Sarkar Baba Sahib (ra) was not there? What kind of experience was it? The answer is that presence is not needed for such an experience because of the Spiritual Bond (Nisbat) he had with the Chain of earlier Spiritual Elders of his Silsila who were alive during those times. This Nisbat was sufficient. We believe that their Sayings and Actions, some in writing and the rest, have been spiritually transferred, heart-to-heart, onto Sarkar Baba Sahib (ra). It is his real, invaluable inheritance. So Sarkar Baba Sahib (ra) can say, with full confidence, that he has more than 1400 years of experience. This is Our Belief with Certainty!

اس کے پیش نظر، یہ سوالات اٹھتے ہیں کہ سرکار بابا صاحبؒ کس طرح ۱۴ صدیوں سے زیادہ کے تجربے کا دعویٰ کر سکتے ہیں؟ یہ کیسے ممکن تھا جب سرکار بابا صاحبؒ وہاں موجود نہیں تھے؟ یہ کس قسم کا تجربہ تھا؟ جواب یہ ہے کہ ایسے تجربے کے لیے جسمانی موجودگی ضروری نہیں ہے کیونکہ سرکار بابا صاحبؒ  کو اپنے سلسلے کے ابتدائی روحانی بزرگوں کے ساتھ ایک روحانی نسبت حاصل تھی، جو ان ادوار میں موجود تھے۔ یہ نسبت ہی  کافی تھی۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ ان کے اقوال اور افعال، کچھ تحریر میں اور باقی روحانی طور پر، دل سے دل تک سرکار بابا صاحبؒ کو منتقل ہو گئے۔ یہ ان کا حقیقی اور انمول ورثہ ہے۔ اس لیے سرکار بابا صاحبؒ پورے اعتماد کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے پاس ۱۴۰۰ سال سے زیادہ کا تجربہ ہے۔ یہ ہمارا یقین ہے، اور ہمیں اس پر کامل بھروسہ ہے!

2.3 Logical vs. Spiritual Approach

۲.۳ منطقی بمقابلہ روحانی نقطہ نظر

Sarkar Baba Sahib (ra) has explained the differences between the logical and spiritual approaches to us because, normally, what we think and understand is based on logic (Mantiq). In spirituality, logic is not relevant at all. The way of understanding is completely different. So, spiritual ideas cannot be understood by logic. It is like our belief system that some have accepted as true without logical considerations. If it were based on logic, everyone would be able to grasp it. That is not the case because of the human tendency that everything should be understood with the mind.

سرکار بابا صاحبؒ نے ہمارے لیے منطقی اور روحانی نقطہ نظر کے درمیان فرق کو واضح کیا کیونکہ عموماً جو ہم سوچتے ہیں اور سمجھتے ہیں وہ منطق پر مبنی ہوتا ہے۔ روحانیت میں منطق  کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ سمجھنے کا طریقہ بالکل مختلف ہوتا ہے۔ اس لیے روحانی خیالات کو منطق کے ذریعے نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہ ہمارے عقائد کے نظام کی طرح ہے جسے کچھ لوگوں نے منطقی تفکرات کے بغیر سچ  مان لیا ہے۔ اگر یہ منطق پر مبنی ہوتا  تو ہر شخص اسے سمجھنے کے قابل ہوتا۔ لیکن ایسا نہیں ہے، کیونکہ انسانی فطرت یہی ہے کہ ہر چیز کو دماغ سے سمجھنا ضروری ہے۔

For example, if someone is asked about his life experience. The person is 50 years old and says that he has 50 years of experience. People will not believe him. They will think that either person is lying or is foolish. He won’t remember his first birthday, let alone what happened before then. It does not make sense. If he is not a Sahib-e-Ruhaniyat (Spiritually Enlightened) and responding from his own thinking, then a claim of 50 years of experience will be regarded as foolishness. Spirituality and matters of the soul are far beyond such logic.

مثال کے طور پر، اگر کسی سے اس کے زندگی کے تجربے کے بارے میں سوال کیا جائے اور وہ شخص ۵۰ سال کا ہو اور کہے کہ اس کے پاس ۵۰ سال کا تجربہ ہے، تو لوگ اسے نہیں مانیں گے۔ وہ سوچیں گے کہ یا تو وہ شخص جھوٹ بول رہا ہے یا بے وقوف ہے۔ وہ اپنے پہلے جنم دن کویاد نہیں کر سکتاا، تو اس سے پہلے جو کچھ ہوا اس کا تو سوال ہی نہیں۔ یہ منطقی نہیں لگتا۔ اگر وہ صاحبِ روحانیت (روحانی طور پر منور) نہیں ہے اور محض اپنی سوچ سے جواب دے رہا ہے، تو ۵۰ سال کے تجربے کا دعویٰ بے وقوفی سمجھا جائے گا۔ روحانیت اور روح کے معاملات ایسی منطق سے کہیں بلند و برتر ہیں۔

2.4 Role of the Belief System: Examples

۲.۴ عقیدہ کے نظام کا کردار: مثالیں

Here, the listeners and readers will need to engage their Belief Systems to understand. Sarkar Baba Sahib (ra) told us that he was 50 times more afraid of Allah (swt) than us. We would not accept this as true unless we believed in him that he was telling the truth. So if he told us about what happens in the Grave or that he had more than 1400 years of experience, we would believe him only because we have faith in him, not because it makes sense logically. This is why Sahib-e-Khidmat (Divinely Appointed Caretakers) most commonly do not talk to us about Spirituality (Ruhaniyat), and we have no association of faith with them. They are afraid of being misunderstood. So they keep quiet and profess ignorance if asked.

یہاں، سننے والوں اور قارئین کو سمجھنے کے لیے اپنے عقیدہ کے نظام کو فعال کرنا پڑے گا۔ سرکار بابا صاحبؒ نے ہمیں بتایا کہ وہ اللہ (سبحانہ وتعالیٰ) سے ہم سے ۵۰ گنا زیادہ خوفزدہ تھے۔ ہم اسے سچ ماننے کے لیے تب تک تیار نہیں ہوتے جب تک کہ ہم ان پر ایمان نہ رکھتے ہوں اور یہ نہ مانیں کہ وہ سچ کہہ رہے ہیں۔ تو اگر وہ ہمیں قبر کے بارے میں بتاتے یا یہ کہتے کہ ان کے پاس ۱۴۰۰ سال سے زیادہ کا تجربہ ہے، تو ہم انہیں صرف اس لیے مانیں گے کیونکہ ہم ان پر ایمان رکھتے ہیں، نہ کہ اس لیے کہ یہ منطقی طور پر سمجھ آتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ عام طور پر صاحبِ خدمت (الہامی طور پر مقرر کردہ سرپرست) ہم سے روحانیت کے بارے میں بات نہیں کرتے، اور ان کا ہم سے ایمان کا تعلق نہیں ہوتا۔ وہ غلط سمجھے جانے کے خوف سے خاموش رہتے ہیں اور اگر ان سے پوچھا جائے تو لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں۔

2.4.1 Spiritual Ascension (Mei’raj)

۲.۴.۱ روحانی معراج (مِعراج)

Related to the experience of the Prophetic Ascension to Heaven (Mei’raj), Hazoor (saw) said that when he got to the Spiritual Realm (Aalam-e-Ruhaniyat), he heard the footsteps of Hazrat Bilal (rz), in front of him and Hazrat Abu Bakr (rz) was around. Were Hazrat Bilal (rz) and Abu Bakr Siddique (ra) present there? When asked, both said that they did not know. But Allah (swt) and His Rasool (saw) know best. What Hazoor (saw) said was the Absolute Truth. Both were there because of their Absolute Faith in the Prophet (saw). They did not physically have to be there to have the experience.

حضرت نبی اکرم ﷺ کی معراج کے تجربے سے متعلق، حضرت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب وہ عالمِ روحانیت میں پہنچے، تو انہوں نے حضرت بلالؓ کے قدموں کی آواز سنی، جو ان کے سامنے تھے، اور حضرت ابو بکر صدیقؓ بھی اپنے آس پاس پایا۔ کیا حضرت بلالؓ اور حضرت ابو بکر صدیقؓ وہاں موجود تھے؟ جب سوال کیا گیا، تو دونوں نے کہا کہ انہیں نہیں معلوم۔ لیکن اللہ (سبحانہ وتعالیٰ) اور اس کے رسول ﷺ ہی سب سے بہتر جانتے ہیں۔ جو کچھ حضرت رسول اللہ ﷺ نے کہا وہ حق اور سچ ہے۔ دونوں وہاں اس لیے موجود تھے کیونکہ ان کا نبی اکرم ﷺ پر ایمان کامل تھا۔ انہیں اس تجربے کے لیے جسمانی طور پر موجود ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔

When Hazoor (saw) talked about his Heavenly Ascension. Abu Jahl heard this and was very surprised because he knew that Hazrat Abu Bakr (rz) was out of town and would be coming back the following morning. So he went to the City Gate to wait for him. When he met Hazrat Abu Bakr (rz), he proposed a scenario in which he got up from his rocking chair, went to meet Allah (swt), and came back while the chair was still moving. And it all happened in a matter of seconds. Then he asked Hazrat Abu Bakr (rz) whether he believed him.

جب حضرت رسول اللہ ﷺ نے اپنی آسمانی معراج کے بارے میں بات کی، تو ابو جہل نے یہ سنا اور بہت حیران ہوا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ حضرت ابو بکرؓ  اس وقت شہر سے باہر ہیں اور اگلے دن واپس آئیں گے۔ چنانچہ وہ شہر کے دروازے پر ان کے انتظار میں جا کھڑا ہوا۔ جب انہوں نے حضرت ابو بکرؓ سے ملاقات کی، تو انہوں نے ایک فرضی  منظر پیش کیا جس میں وہ اپنی جھولنے والی کرسی سے اٹھے، اللہ (سبحانہ وتعالیٰ) سے ملاقات کرنے گئے،اور واپس آ کر دیکھا کہ کرسی اب بھی جھول رہی ہے، اور یہ سب چند سیکنڈز میں ہوا۔ پھر انہوں نے حضرت ابو بکرؓ سے پوچھا کہ کیا وہ اس بات  پر ایمان رکھتے ہیں؟

Hazrat Abu Bakr (rz) told him that, first of all, he was Abu Jahl. Even if he were a believing Brother, he would not believe that it was possible. Abu Jahl was very amused to hear this. He smiled and told him that the one whom Hazrat Abu Bakr (rz) called a Rasool had just announced the same thing. Abu Jahl was very happy that, at last, he had cornered him. Just hearing the mention of Rasool Allah (saw), Hazrat Abu Bakr (rz), through heart-to-heart communication, reached that Station. His Essence (Ruh) traveled there. He was invited to see, and he saw, in detail, and experienced all directly. He declared loudly, “Amanna Sadaqna, Ya Rasool Allah (saw) (Absolutely True, O’Rasool Allah (saw))” and prostrated (Sajda) on the ground, there and then.

حضرت ابو بکرؓ نے انہیں جواب دیا کہ سب سے پہلے، وہ ابو جہل ہیں۔ اگر وہ ایک مومن بھائی بھی ہوتے، تب بھی وہ یہ نہیں مانتے کہ ایسا ممکن ہے۔ ابو جحل یہ سن کر بہت محظوظ ہوا۔ وہ مسکرایا اور کہنے لگا کہ وہ شخص جسے حضرت ابو بکرؓ نے رسول کہا، اسی نے ابھی یہ بات اعلان کی ہے۔ ابو جہل بہت خوش تھا کہ آخرکار وہ حضرت ابو بکرؓ کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ بس رسول اللہ ﷺ کا ذکر سنتے ہی، حضرت ابو بکرؓ دل سے دل کے ذریعے اس مقام تک پہنچے۔ ان کی حقیقت (روح) وہاں تک پہنچی۔ انہیں دیکھنے کی دعوت دی گئی، اور انہوں نے تفصیل سے دیکھا اور سب کچھ براہ راست تجربہ کیا۔ پھر انہوں نے بلند آواز سے کہا، “آمَنَّا وَصَدَّقْنَا، یَا رَسُولَ اللّٰہِ (ہم نے ایمان قبول کیا اور تصدیق کی، یا رسول اللہ ﷺ)” اور فوراً زمین پر سجدہ کیا۔

Abu Jahl was a very intelligent, worldly, wise man. He confronted Hazrat Abu Bakr (rz) about how he could talk as if he were a witness there. Even his relatives would not believe Hazrat Abu Bakr (rz). It was not logical. Hazrat Abu Bakr (rz) responded that he believed only because Rasool Allah (saw) said it. He didn’t have to be there to witness it. His heart and soul were experiencing what Rasool Allah (saw) had said and showed him. He could describe the details, such as the nearness of the two eyebrows (Kaaba-Qausain, Au Adna), whereby the two are joined into a single one, from Duality to Unity. Abu Jahl persisted with various other contrary arguments but without success. It was the certainty of the Belief of Hazrat Abu Bakr (rz) in the Prophet (saw) that had resulted in his experience. So, presence was not a must to have the experience. It was only possible because he had complete and Absolute Faith (Yaqeen-e-Kaamil).

ابو جحل ایک بہت ذہین، دنیا دار اور عقلمند شخص تھا۔ اس نے حضرت ابو بکر صدیقؓ سے اس بات پر سوال کیا کہ وہ اس طرح کیسے بات کر سکتے ہیں جیسے وہ خود وہاں موجود تھے۔ حتیٰ کہ ان کے رشتہ دار بھی حضرت ابو بکرؓ کی بات پر یقین نہیں کرتے تھے۔ یہ منطقی نہیں تھا۔ حضرت ابو بکرؓ نے جواب دیا کہ وہ صرف اس لیے ایمان رکھتے ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا ہے۔ انہیں وہاں موجود ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔ ان کا دل اور روح وہ سب محسوس کر رہے تھے جو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور دکھایا تھا۔ وہ تفصیل سے بیان کر سکتے تھے، جیسے دونوں ابروؤں کے قریب ہونے کا معاملہ (قاب قوسین، او ادنی)، جہاں دو کو وحدت میں یکجا ہوتے ہوئے دکھایا گیا، یعنی دوئی سے یکجہتی کی طرف۔ ابو جحل نے مختلف دوسرے متضاد دلائل پیش کیے لیکن کامیابی حاصل نہ کر سکا۔  یہ حضرت ابو بکر صدیقؓ کا نبی اکرم ﷺ پر یقین اور ایمان کی پختگی تھی جس نے اس تجربے کو ممکن بنایا۔  اس لیے، تجربے کے لیے موجودگی ضروری نہیں تھی۔ یہ صرف اس لیے ممکن تھا کہ ان کا ایمان مکمل اور پختہ تھا (یقینِ کامل)۔

In physical reality, if there is a wall and someone goes behind the wall and sees something, we would not see what he saw. Logically, it is not possible. In the spiritual realm, such a happening is definitively possible and very common. When a Soul (Ruh) has come, after being with Hazoor (Risalat-ma’-Aaap (saw)) and has brought back the gift of love, compassion, and kindness, the inhabitants of Jannah are exuberant. By focusing their attention, these Souls (Arwah) are able to see and experience, according to their capability, what the visitor had seen and experienced, all in detail. Again, we realize that it is not logical, but in spirituality, it is a reality.

جسمانی حقیقت میں، اگر ایک دیوار ہو اور کوئی اس کے پیچھے جا کر کچھ دیکھے، تو ہم وہ نہیں دیکھ پائیں گے جو اس نے دیکھا۔ منطقی طور پر یہ ممکن نہیں ہے۔ لیکن روحانی عالم میں، ایسا واقعہ قطعی طور پر ممکن ہے اور بہت عام ہے۔ جب ایک روح (روح) حضرت رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں رہ کر، محبت، ہمدردی اور مہربانی کا تحفہ لے کر واپس آتی ہے، تو جنت کے باشندے خوشی سے جھوم اٹھتے ہیں۔  اپنی توجہ مرکوز کر کے یہ ارواح، اپنی صلاحیت کے مطابق، وہ سب دیکھنے اور محسوس کرنے کے قابل ہو جاتی ہیں جو آنے والے نے دیکھا اور محسوس کیا تھا، اور وہ بھی مکمل تفصیل کے ساتھ۔ ایک بار پھر ہم  تسلیم کرتے ہیں کہ یہ منطقی نہیں ہے، لیکن روحانیت میں یہ ایک حقیقت ہے۔

If a person is sitting in Timbuktu, he describes in his diary having lunch at a certain restaurant. What was the menu, what did he have, and how much did he enjoy it? Now, he has a choice to keep it private for himself or share it with others. With modern technology, he can broadcast it so that any recipient will know about it. Now, imagine the greatness of the capability and the reach of the Spirit (Ruh) that has been designed and put in us by the Creator. Is it capable of doing this? It is not just a hypothetical speculation but a practical reality. Sarkar Baba Sahib (ra) has been living proof of his experience for more than 1400 years—all a result of his profound Spiritual Bond (Nisbat). From a physical, worldly perspective, our relationships are time-limited. The Spirit Ones are eternal and based on Faith and Love.

اگر ایک شخص تیمبکٹو میں بیٹھا ہو اور اپنی ڈائری میں ایک مخصوص ریسٹورنٹ میں دوپہر کا کھانا کھانے کی تفصیل لکھے، جیسے کہ مینو کیا تھا، اس نے کیا کھایا، اور وہ کتنی خوشی سے اس کا لطف اٹھا رہا تھا؟ اب اس کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ اس معلومات کو اپنے لیے نجی رکھے یا دوسروں کے ساتھ شیئر کرے۔ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت وہ اسے نشر کر سکتا ہے تاکہ ہر وصول کنندہ اس کے بارے میں جان سکے۔ اب تصور کریں کہ روح (روح) کی جو عظمت اور صلاحیت ہے، جو خالق نے ہمیں عطا کی ہے، اس کا کتنا وسیع دائرہ ہے۔کیا یہ بھی ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے؟ یہ محض ایک مفروضہ نہیں بلکہ ایک عملی حقیقت ہے۔ سرکار بابا صاحبؒ اپنے تجربے کی ۱۴۰۰ سال سے زیادہ کی جیتی جاگتی گواہی ہیں — اور یہ سب ان کے گہرے روحانی تعلق (نسبت) کا نتیجہ ہے۔ جسمانی اور دنیاوی نقطہ نظر سے ہمارے تعلقات وقت کی قید میں محدود ہوتے ہیں، جبکہ روحانی موجودات ابدی ہیں اور ایمان اور محبت پر مبنی ہیں۔

2.5 Worry and Sadness: Ways of Relief

۲.۵ پریشانی اور غم: راحت کے طریقے

From a worldly perspective, people experience worry and sadness. How do we deal with it? Most importantly, we must understand that almost all of our pain and suffering are related to our expectations, especially from others. Instead of Allah (swt), we turn to others and rely on them, but we are often disappointed. There are three ways to reestablish our Reliance on Allah (swt).

دنیاوی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو لوگ پریشانی اور غم کا سامنا کرتے ہیں۔ ہم اس کا مقابلہ کیسے کرتے ہیں؟ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہمارے زیادہ تر درد اور تکلیفیں ہماری توقعات سے جڑی ہوتی ہیں، خاص طور پر دوسروں سے۔ اللہ (سبحانہ وتعالیٰ) کی بجائے ہم دوسروں کی طرف رجوع کرتے ہیں اور ان پر انحصار کرتے ہیں، لیکن اکثر مایوس ہو جاتے ہیں۔ اللہ (سبحانہ وتعالیٰ) پر ہمارا اعتماد دوبارہ قائم کرنے کے تین طریقے ہیں۔

2.5.1 Remembrance of the Divine

۲.۵.۱ ذکرِ الہی

Firstly, being preoccupied with steadfast Remembrance (Zikr) of Allah (swt). Reliance on Him is a must. Realize that nothing exists without Him. He is Omniscient! Wherever you turn, call Him by any of His names. But realize that he is not limited to any one Name. The word Allah (swt) includes all of them. His Essence (Zaat) is omnipresent. He is the One and Only that we must rely on.

سب سے پہلے، اللہ (سبحانہ وتعالیٰ) کا پختہ ذکر (ذکر) کرنا ضروری ہے۔ اس پر اعتماد ضروری ہے۔ یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کے بغیر کچھ بھی موجود نہیں ہے۔ وہ سب کچھ جاننے والا ہے! جہاں کہیں بھی مڑو، اس کے کسی بھی نام سے اسے پکارو۔ لیکن یہ سمجھنا ضروری ہے کہ وہ کسی ایک نام تک محدود نہیں ہے۔ اللہ (سبحانہ وتعالیٰ) کا کلمہ ان تمام ناموں کو شامل کرتا ہے۔ اس کی ذات (ذات) ہر جگہ موجود ہے۔ وہ واحد ہے جس پر ہمیں انحصار کرنا چاہیے۔

2.5.2 Intention to Action

۲.۵.۲ نیت سے عمل تک

Secondly, if we ever move away from Allah (swt) and start relying on other sources, for sure, we have brought on ourselves pain and suffering. Realize this, and you can seek forgiveness as quickly as possible; the quicker, the better. We must accept that what Sarkar Baba Sahib (ra) has said is the truth and decide to rely only on Allah (swt) and no one or anything else. This is a great decision, but realize that just our intention is not enough. There are major challenges and obstacles in force. There will be lots of testing and tempting situations to derail our intention and convince us that it is not possible. Now, what to do?

دوسری بات یہ کہ، اگر ہم کبھی اللہ (سبحانہ وتعالیٰ) سے دور ہو جائیں اور دوسرے ذرائع پر انحصار کرنا شروع کر دیں، تو یقیناً ہم نے اپنے اوپر درد اور تکلیف کو خود دعوت دی ہے۔اس حقیقت کو سمجھیں، اور جتنی جلدی ہو سکے، معافی طلب کریں؛ جتنی جلدی کریں گے، اتنا ہی بہتر ہوگا۔ ہمیں یہ قبول کرنا چاہیے کہ جو کچھ سرکار بابا صاحبؒ نے کہا وہ سچ ہے اور ہمیں صرف اللہ (سبحانہ وتعالیٰ) پر انحصار کرنے کا فیصلہ کرنا چاہیے، کسی اور پر یا کسی اور چیز پر نہیں۔ یہ ایک عظیم فیصلہ ہے، لیکن یہ سمجھنا ضروری ہے کہ صرف ہماری نیت کافی نہیں ہے۔ اس راستے میں بڑی مشکلات اور رکاوٹیں موجود ہوں گی۔ ہمارے ارادے کو پٹری سے اتارنے کے لیے بہت ساری آزمائشیں اور وسوسے آئیں گے جو ہمیں قائل کریں گے کہ یہ ممکن نہیں ہے۔ تو اب، کیا کرنا چاہیے؟

The answer is that we will not be able to do it by our own efforts. The only way is that in our Remembrance (Zikr), we seek help from Allah (swt) to grant us the capability and capacity to seek His help from the depth of our Hearts and Beings. It is not our effort but His Help that will help us succeed. So we must give our sincere attention (Niyyah), plan (Irada), with a heartfelt desire to pay undivided attention to Allah (swt), His Essence (Zaat) and His qualities (Sifaat). These are not separate entities. They are inseparable.

جواب یہ ہے کہ ہم اپنے ذاتی کوششوں سے یہ کام انجام نہیں دے سکتے۔ واحد طریقہ یہ ہے کہ اپنے ذکر (ذکر) میں ہم اللہ (سبحانہ وتعالیٰ) سے مدد طلب کریں تاکہ وہ ہمیں اس قابل بنائے کہ ہم اپنی دل کی گہرائیوں اور وجود کی اصل سے اس کی مدد طلب کر سکیں۔ یہ ہماری کوشش نہیں بلکہ اس کی مدد ہے جو ہمیں کامیابی حاصل کرنے میں مدد دے گی۔ اس لیے ہمیں اپنی خلوص نیت (نیت)، ارادہ (ارادہ) اور دل کی گہرائی سے خواہش کے ساتھ اللہ (سبحانہ وتعالیٰ) پر توجہ مرکوز کرنے کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے، اس کی ذات (ذات) اور اس کے صفات (صفات) پر۔ یہ علیحدہ موجودات نہیں ہیں۔ یہ آپس میں جدا نہیں ہو سکتیں۔

2.5.3 Gratitude

۲.۵.۳ شکرگزاری

Thirdly, an essential element is Gratitude (Shukrana). We can intend to be grateful and make it our practice. Thus, we can acquire the Station of Gratitude (Shukranay Ka Muqam). Then, we can enjoy its Joy and Ecstasy (Kaif). Remember that for the progress from Remembrance to Concentration to Gratitude, there is a means of getting from one position to a higher one (Burraq) (Note: This Burraq is not referring to the one that took the Prophet (saw) for Mei’raj (Heavenly Ascension)). Here, it is used in the same sense as Salah is Mei’raj for the Pious Believers. This particular Burraq takes a Believer from a Lower Spiritual Station to a Higher Station. This Burraq is called Tauba (Seeking Forgiveness). In Ruhaniyat, Tauba is the First Station; without it, there would be no progress.

تیسری بات، ایک اہم عنصر شکرگزاری (شکرانہ) ہے۔ ہم شکر گزار ہونے کا ارادہ کر سکتے ہیں اور اسے اپنی عادت بنا سکتے ہیں۔ اس طرح، ہم شکرگزاری کے مقام (شکرانے کا مقام) کو حاصل کر سکتے ہیں۔ پھر ہم اس کی خوشی اور لذت (کیف) سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔یاد رکھیں کہ ذکر سے توجہ اور پھر شکرانے تک ترقی کے لیے ایک ذریعہ ہے جو ایک مقام سے دوسرے اعلیٰ مقام تک لے جاتا ہے (براق)۔ (نوٹ: یہ براق وہ نہیں ہے جو حضرت رسول اللہ ﷺ کو معراج کے لیے لے کر گیا تھا)۔ ہاں اس براق کا ذکر اسی معنی میں کیا گیا ہے جیسے نماز متقی مومنین کے لیے معراج ہے۔ یہ خاص براق ایک مومن کو ایک نچلے روحانی مقام سے ایک اعلیٰ مقام تک لے جاتا ہے۔ اس براق کو توبہ (اللہ سے معافی طلب کرنا) کہا جاتا ہے۔ روحانیت میں، توبہ پہلا مقام ہے؛ اس کے بغیر کوئی ترقی ممکن نہیں۔

Rasool Allah (saw) practiced Tauba 70 times (Note: In Arabic, ’70 times’ is an expression for uncountable times) a day, not because of doing anything wrong but to reach the Divine. For ordinary folks (Aam Loag), Tauba takes you from the quagmire of Sin towards Goodness. It helps them feel the error of what they are doing and offers help to get them out of the sinful life situation. The individual repents and moves on. For the Chosen Ones (Khaas Loag), it liberates them from any mistakes. For the Chosen of the Chosen Ones (was-o-Khass), it is the Burraq that takes them to the Higher Stations to get there and to return. Tauba is not just a word. It is the Divine Brilliance (Noor). The one who achieves Gratefulness (Shakir) also becomes patient (Sabir). Patience results from the joyful outcome of Gratitude. It is the way to achieve self-satisfaction (Aafiyat).

رسول اللہ ﷺ روزانہ ۷۰ بار توبہ کرتے تھے (نوٹ: عربی میں ’۷۰ بار’ کا مطلب ہے بے شمار بار)،  یہ کسی غلطی کے سبب نہیں بلکہ قربِ الٰہی کے حصول کے لیے تھا۔ عام لوگوں کے لیے، توبہ انسان کو گناہوں کے دلدل سے نکال کر بھلا ئی کی طرف لے جاتی ہے۔یہ انہیں ان کے کیے ہوئے غلط اعمال کا احساس دلاتی ہے اور انہیں گناہوں بھرے حالات سے باہر نکلنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ فرد گناہوں سے توبہ کرتا ہے اور آگے بڑھتا ہے۔ منتخب افراد (خاص لوگ) کے لیے، توبہ انہیں کسی بھی خطا سے آزاد کر دیتی ہے۔ اور خواص کے بھی خواص  کے لیے، یہ برق رفتار سواری (براق)کی مانند ہے جو انہیں بلند مقامات تک پہنچاتی ہے اور واپس لاتی ہے۔ توبہ صرف ایک لفظ نہیں ہے۔ یہ الہامی چمک (نور) ہے۔ جو شخص شکر گزار (شاکر) ہوتا ہے وہ صبر بھی اختیار کرتا ہے۔ صبر شکرگزاری کے خوشگوار نتائج سے پیدا ہوتا ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جو خود کی راحت اور عافیت کے حصول کی طرف لے جاتا ہے۔

Genuine attention has to be solely towards the Divine, nothing else. It is said that it’s better not to meet if the meeting is just a polite exchange of greeting formalities, “Hello, how are you?”. It is not a shallow effort but a genuine commitment.

حقیقی توجہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی طرف ہونی چاہیے، اور کچھ نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اگر ملاقات صرف رسمی بات چیت جیسے “ہیلو، آپ کیسے ہیں؟” تک محدود ہو تو ملاقات نہ کرنا بہتر ہے۔ یہ کوئی سطحی کوشش نہیں بلکہ ایک حقیقی عہد ہے۔

2.5.4 Divine Worship: Ways and Means

۲.۵.۴ الہامی عبادت: طریقے اور ذرائع

If our Worship (Ibadat) and Servitude (Bandagi) are coming from the heart, nobody will praise us because they do not witness it. If nobody praises you, you are spared from many harmful things (Balaen). Be very fearful of worldly praise. It is potentially very harmful. Allah (saw) being the witness is more than enough. There is no need for praise from anyone else. Allah says that offer Salah (Namaz), not for others to see, only for Him and Him alone. The result of this will be that after each Salah, you will eagerly wait for the next one.

اگر ہماری عبادت (عبادت) اور بندگی (بندگی) دل سے آ رہی ہو، تو کوئی بھی ہماری تعریف نہیں کرے گا کیونکہ وہ اسے دیکھ نہیں پاتے۔ اگر کوئی ہماری تعریف نہ کرے، تو آپ کئی نقصان دہ چیزوں (بلاؤں) سے بچ جاتے ہیں۔ دنیاوی تعریف سے بہت ڈریں۔ یہ بہت نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ اللہ (سبحانہ وتعالیٰ) کا گواہ ہونا ہی کافی ہے۔ کسی اور کی تعریف کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نماز (نماز) پڑھو، دوسروں کو دکھانے کے لیے نہیں،بلکہ  صرف اور صرف میرے لیے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہر نماز کے بعد آپ اگلی نماز کا بے صبری سے انتظار کریں گے۔

2.5.5 Reality of Yousuf Nagar

۲.۵.۵ یوسف نگر کی حقیقت

Someone may feel that they want to serve at Yousuf Nagar but are being prevented by someone. Why worry? Focus on that person and complain. Instead, focus on Allah (saw). Do not look elsewhere. Ponder the question, “What is Yousuf Nagar?” The Reality of Yousuf Nagar is that we may be anywhere in the World, if we Love Sarkar Baba Sahib (ra) then we are Yousuf Nagar. We have the Love and Spiritual Bond (Nisbat). Then, anywhere we are and we look at the earth or the sky, Yousuf Nagar is everywhere and in everything. You cannot serve Yousuf Nagar; Yousuf Nagar is serving you. So be very clear. What is Yousuf Nagar? Who is Yousuf Nagar? Where is Yousuf Nagar? Do not associate it with anyone or any one particular place. Once we understand this, whoever comes into our Yousuf Nagar and we offer hospitality will be served, and it is like serving someone in Paradise. Yousuf Nagar is an outcome, a result. It is Love (Muhabbat) and a Spiritual Bond (Nisbat). Sarkar Baba Sahib (ra) is with and among us, not somewhere at a High Station. We are fellow travelers; he is a companion of every Mureed.

کسی کو یہ محسوس ہو سکتا ہے کہ وہ یوسف نگر میں خدمت کرنا چاہتے ہیں مگر کوئی انہیں روک رہا ہے۔ کیوں فکر کریں؟ اس شخص پر توجہ مرکوز کریں اور شکایت کریں۔ اس کی بجائے اللہ (سبحانہ وتعالیٰ) پر توجہ مرکوز کریں۔ کہیں اور نہ دیکھیں۔ یہ سوال سوچیں، ”یوسف نگر کیا ہے؟“۔ یوسف نگر کی حقیقت یہ ہے کہ ہم دنیا میں کہیں بھی ہوں، اگر ہم سرکار بابا صاحبؒ سے محبت کرتے ہیں تو ہم یوسف نگر ہیں۔ ہمیں یہ محبت اور روحانی نسبت حاصل ہے۔ پھر، ہم جہاں بھی ہوں، جب ہم زمین یا آسمان کو دیکھیں، یوسف نگر ہر جگہ اور ہر چیز میں ہے۔ آپ یوسف نگر کی خدمت نہیں کر سکتے؛ یوسف نگر آپ کی خدمت کر رہا ہے۔لہٰذا یہ بات واضح طور پر سمجھ لیں۔ یوسف نگر کیا ہے؟ یوسف نگر کون ہے؟ یوسف نگر کہاں ہے؟ اسے کسی شخص یا کسی خاص جگہ سے وابستہ نہ کریں۔ جب ہم یہ بات سمجھ لیں، تو جو بھی ہمارے یوسف نگر میں آئے اور ہم اس کی میزبانی کریں، وہ جنت کے مہمان کی خدمت کے مترادف ہوگا۔ یوسف نگر ایک نتیجہ ہے، ایک حاصل ہے۔ یہ محبت (محبت) اور ایک روحانی تعلق (نسبت) ہے۔ سرکار بابا صاحبؒ ہمارے ساتھ اور ہمارے درمیان ہیں، کسی بلند مقام پر نہیں۔ ہم ہمسفر ہیں؛ وہ ہر مرید کے ساتھی ہیں۔

2.5.6 Dealing with Life Situations

۲.۵.۶ زندگی کی صورتحال کا مقابلہ کرنا

Complaints

شکایات

If we complain about anybody or anything in the whole of Creation, we are complaining about Allah (saw). Even if we have evidence and proof that someone slapped you, any complaining about it is complaining against Allah (saw). Every complaint, no matter how justified, reaches Him. By practicing this habit of not complaining, one can achieve the Station where no matter who we remember, It will be a Remembrance of Allah (swt). Whoever we attend to, Allah (swt) will be attending with us.

اگر ہم  پوری کائنات میں کسی بھی چیز یا کسی بھی شخص کے بارے میں شکایت کرتے ہیں، تو ہم دراصل اللہ (سبحانہ وتعالیٰ) کے بارے میں شکایت کر رہے ہوتے ہیں۔ چاہے ہمارے پاس کوئی ثبوت ہو کہ کسی نے ہمیں تھپڑ مارا، لیکن اس کے بارے میں شکایت کرنا، اللہ (سبحانہ وتعالیٰ) کے خلاف شکایت کرنا ہے۔ ہر شکایت، چاہے وہ کتنی ہی جائز کیوں نہ ہو، اللہ تعالیٰ تک پہنچتی ہے۔ اس عادت کو اپنانے سے کہ ہم شکایت نہ کریں، ایک ایسا مقام حاصل کیا جا سکتا ہے جہاں کوئی بھی شخص یا چیز جسے ہم یاد کریں۔  اور جس کی طرف بھی توجہ دیں، اللہ تعالیٰ ہماری توجہ کے ساتھ شریک ہوں گے۔

Fears

خوف

People are afraid (Pareshaan) of dying and are constantly worried (Pareshani) about it. If death does not happen, worrying is useless. If it happens, then all the worry one has caused is of no use. Sarkar Aala Hazrat (ra) said,

لوگ موت سے ڈرتے ہیں اور اس کے بارے میں مسلسل پریشان رہتے ہیں۔ اگر موت نہیں آتی، تو پریشان ہونا بے فائدہ ہے۔ اور اگر موت آ جاتی ہے، تو جو پریشانی انسان نے کی تھی، وہ بے اثر ہو جاتی ہے۔ سرکار اعلیٰ حضرتؒ نے فرمایا،

“O ‘People, Don’t Be Worried. Be Like a Essence of Beauty”
(Aey Loagon, Pareshaan Naa Ho. Paree Shaan Ho Jao).

“اے لوگوں، پریشان نہ ہو، خوبصورت پری کی طرح بنو”
۔(اے لوگوں، پریشان نہ ہو۔ پری شان ہو جاؤ)

Worry is not in the nature of Beauty. It means to be worry-free. Live and die happy rather than worried and disturbed.

حسن کی فطرت میں پریشانی نہیں ہوتی۔ اس کا مطلب ہے کہ پریشانی سے آزاد رہو۔ خوشی کے ساتھ جیو اور خوشی کے ساتھ گزر جاؤ، نہ کہ پریشان اور بے چین ہو کر۔

2.۵.7 Pass-e-Anfaas

۲.۵.۷ پَاسِ اَنفَاس

We have been taught Pass-e-Anfaas (https://silsilayousufi.com/practicing-paas-e-anfaas/). We do ablution (Wuzu) to cleanse the body. Passe Anfass is the ablution of our Hidden Inner Spiritual Self (Ruh). It is the Best of the Remembrance Practices (Zikr-e-Sultani). It is the practice of negation and affirmation. There is no God (La Ilaaha) but God (Illallah). With diligent practice, it becomes affirmation only where a Chosen Name of Allah (swt) is substituted for the second part. Practice it and enjoy the experience. It is very hard to describe the pleasure and joy of this experience. There is a delicate scent (Dheemi, Dheemi Khushboo) and a constant pleasurable sensation within (Halka, Halka Saroor). You will get a feel for it that God (Khuda) is with you. When you are practicing in the room by yourself, never feel alone. Feeling alone is like poison in Spirituality (Ruhaniyat). A person can not be by oneself. It is impossible, no matter how hard you try. Ever since Allah Almighty declared that He is closer than our Jugular Vein, this means that He knows what we are thinking, what we are saying, what we are doing, all in all. If we really believe this, then it becomes a Certainty. The Duality of me and Him become One.

ہمیں پَاسِ اَنفَاس کی تعلیم دی گئی ہے (https://silsilayousufi.com/practicing-paas-e-anfaas/) ہم وضو کرتے ہیں تاکہ جسم کو صاف کریں۔ پاسِ اَنفَاس ہماری چھپی ہوئی روحانی ذات (روح) کا وضو ہے۔ یہ ذکرِ سلطانی میں سے بہترین ذکر ہے۔ یہ نفی اور اثبات کی مشق ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں (لا الہ) سوائے اللہ کے (الا الل)۔ اس پر محنت سے عمل کرنے سے یہ صرف اثبات بن جاتا ہے جہاں اللہ کے کسی منتخب نام کو دوسرے حصے میں رکھا جاتا ہے۔ اس پر عمل کریں اور اس کے تجربے کا لطف اٹھائیں۔ اس تجربے کی خوشی اور لذت کو بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ اس میں ایک نرمی کی خوشبو (دھیمی، دھیمی خوشبو) اور  اندرونی طور پر ایک مستقل خوشگوار احساس (ہلکا، ہلکا سرور) ہوتا ہے۔آپ کو ایسا محسوس ہوگا کہ اللہ (خدا) آپ کے ساتھ ہے۔ جب آپ کمرے میں اکیلے مشق کر رہے ہوں، تو کبھی خود کو تنہا نہ سمجھیں۔ تنہا محسوس کرنا روحانیت میں زہر کی طرح ہے۔ ایک شخص کبھی بھی اکیلا نہیں ہو سکتا۔ یہ ناممکن ہے، چاہے آپ کتنی ہی کوشش کریں۔ جب سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ ہماری شہ رگ سے زیادہ قریب ہیں، اس کا مطلب ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ ہم کیا سوچ رہے ہیں، ہم کیا کہہ رہے ہیں، ہم کیا کر رہے ہیں، یعنی  سب کچھ۔ اگر ہم واقعی اس پر ایمان رکھتے ہیں، تو یہ یقین بن جاتا ہے۔ “میں” اور “وہ” کی دوگانہ حیثیت وحدت میں بدل جاتا ہے۔

From Duality to Unity. Then, we will not feel like going out of the room. People may think that we are lonely, but we are never alone. We are certain that the Creator, Lord of the Universe, is present in us and in all else besides us, everywhere and in everything.

دُئی سے وحدت تک۔پھر ہمیں کمرے سے باہر جانے کی خواہش محسوس نہیں ہوگی۔ لوگ شاید یہ سوچیں کہ ہم تنہا ہیں، لیکن ہم کبھی تنہا نہیں ہوتے۔ ہمیں یقین ہوتا ہے کہ خالق، کائنات کا رب، ہمارے اندر اور ہمارے علاوہ ہر شے میں، ہر جگہ اور ہر چیز میں موجود ہے۔

3.0 Concluding Statement

۳.۰ اختتامی بیان

This Video is an important resource for learning about subjects that one would not find in a Book. The concepts and practices of Spirituality (Ruhaniyat) have been presented in a way that is accessible and practical. Sarkar Baba Sahib (ra) shared all this and will do more based on his own experience. If we take it all to heart, everything will become very easy. We will understand that it is all for our well-being. All is from Allah (swt). Only look to Him and have no expectations from anyone else.

یہ ویڈیو ایسے موضوعات کے بارے میں سیکھنے کا ایک اہم ذریعہ ہے جنہیں کتابوں میں نہیں پایا جا سکتا۔ روحانیت (روحانیت) کے تصورات اور عملی پہلوؤں کو ایک قابلِ فہم اور عملی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ سرکار بابا صاحبؒ نے یہ سب کچھ اپنے تجربات کی روشنی میں پیش کیا ہے اور مزید بھی کریں گے۔ اگر ہم ان باتوں کو دل سے اپناتے ہیں، تو سب کچھ بہت آسان ہو جائے گا۔ ہم سمجھ جائیں گے کہ یہ سب ہماری بھلا ئی کے لیے ہے۔ سب کچھ اللہ (سبحانہ وتعالیٰ) کی طرف سے ہے۔ صرف اس کی طرف دیکھیں اور کسی اور سے کوئی توقع نہ رکھیں۔

May Allah (saw) grant us the understanding and help us follow the Sufi Way in the best way possible.

آمین۔ اللہ (سبحانہ وتعالیٰ) ہمیں سمجھ دے اور ہمیں بہترین طریقے سے صوفیانہ راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔