20120310 | Albeyli Mehfil

1.0 Introduction

۱.۰ تعارف

This discourse covers many important topics about Ruhaniyat that are nearly impossible to convey in words. Sarkar Baba Sahib (ra) uses logical explanations and analogies to illustrate the key points about the initial interactions between Allah (swt) and our Ruh and the subsequent challenges of living a pious life.

یہ خطبہ روحانیت کے کئی اہم موضوعات پر مشتمل ہے، جنہیں الفاظ میں بیان کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ سرکار بابا صاحبؒ منطقی وضاحتوں اور تشبیهات کے ذریعے ان بنیادی نکات کو بیان فرماتے ہیں، جو اللہ تعالیٰ اور ہماری روح کے ابتدائی تعلقات اور اس کے بعد نیک زندگی گزارنے کی مشکلات پر مشتمل ہیں۔

2.0 Highlights

۲.۰ نمایاں نکات

2.1 Beginning Interaction with Our Rabb

۲.۱ اپنے رب سے ابتدائی تعلق

One cannot imagine Allah (swt) because we cannot see Him. But we have been told by Allah (swt) Himself that before coming into this world, we saw Him. We heard His Question and we answered it. He says that all the Spirits (Arwah) that will come till the end of time were brought before Him. He showed Himself to our Spirits and, according to our Capability (Zarf).

اللہ تعالیٰ کا تصور کرنا ممکن نہیں، کیونکہ ہم انہیں دیکھ نہیں سکتے۔ مگر ہمیں خود اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اس دنیا میں آنے سے پہلے ہم نے انہیں دیکھا تھا۔ ہم نے ان کا سوال سنا اور اس کا جواب دیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ قیامت تک آنے والی تمام ارواح کو ان کے سامنے پیش کیا گیا۔ انہوں نے اپنی ذات کو،  ہمارے ظرف کے مطابق، ہماری ارواح کے سامنے ظاہر فرمایا تھا۔

Allah (swt) asked The Question, “Alastu Bi Rabbikum?” (“Am I Not Your Lord, Your Guardian?”). The Ones that answered, “Qaloo, Balaa” (“Said, Yes, Indeed”) were to come into physical bodies. Some have already come, some are here now and others will come in the future. Without saying, “Balaa,” no one could come into this world. So, for sure, we saw Him, but no one remembers. We have all forgotten. Realistically, we do not remember our childhood. Therefore, how can we remember what transpired before we were in our Mother’s womb? We don’t even remember the first day of our birth. I have no memory of coming into this world. So, there is no way we can remember what happened before then.

اللہ تعالیٰ نے سوال فرمایا: “اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ؟” (“کیا میں تمہارا رب، تمہارا پروردگار نہیں؟”)۔ جنہوں نے جواب دیا: “قَالُوا بَلٰی” (“کہا، ہاں، بے شک”)، انہیں جسمانی پیکروں میں آنا تھا۔ کچھ پہلے ہی آ چکے، کچھ اس وقت یہاں موجود ہیں، اور کچھ مستقبل میں آئیں گے۔ بغیر “بَلٰی” کہے کوئی بھی اس دنیا میں نہیں آسکتا۔ لہٰذا، یقیناً ہم نے انہیں دیکھا، لیکن کسی کو یاد نہیں۔ ہم سب بھول چکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اپنا بچپن بھی یاد نہیں رہتا۔ تو ہم کیسے یاد رکھ سکتے ہیں جو ہماری ماں کے کوکھ میں آنے سے پہلے ہوا؟ ہمیں اپنی پیدائش کے پہلے دن کا بھی کوئی شعور نہیں۔ مجھے اس دنیا میں آنے کا کوئی یاد نہیں۔ اس لیے یہ ممکن نہیں کہ ہم اس سے پہلے کے واقعات کو یاد رکھ سکیں۔

Rabb means Guardian (Parwardigaar, Palanhaar). The one who takes care of us provides sustenance and loves us dearly. This means that the Soul (Ruh) knew all that when it saw Him and answered the question with a resounding “Yes, Indeed.”

رب کا مطلب ہے نگہبان (پروردگار، پالنے والا)۔ وہ ذات جو ہماری دیکھ بھال کرتی ہے، ہمیں رزق عطا کرتی ہے اور ہم سے بے حد محبت فرماتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رُوح نے یہ سب کچھ اُس وقت جان لیا تھا جب اُس نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا اور اُس سوال کا جواب پُرزور انداز میں “جی ہاں، بے شک” کہا۔

Otherwise, it would not have been able to answer the question with such a forceful confirmation and having no doubts (Bey-Shak). We knew our Guardian (Rabb), the provider of everything, but forgot it after our birth in this life. All this is described in the Holy Quran. We have to believe and accept that it happened. If we deny, then we do not believe in Allah (swt).

ورنہ روح اتنے یقین کے ساتھ، بغیر کسی شک کے، اس سوال کا جواب نہیں دے سکتی تھی۔ ہم اپنے نگہبان (رب)، جو ہر شے کا عطا کرنے والا ہے، کو پہچانتے تھے، لیکن اس دنیا میں پیدا ہونے کے بعد ہم اسے بھول گئے۔ یہ سب کچھ قرآنِ مجید میں بیان کیا گیا ہے۔ ہمیں اس پر یقین کرنا ہوگا اور قبول کرنا ہوگا کہ ایسا ہوا تھا۔ اگر ہم انکار کرتے ہیں تو گویا ہم اللہ پر ایمان نہیں رکھتے۔

2.2 The Forgetfulness in Our Worldly Existence

۲.2 دنیاوی زندگی میں ہمارا بھلکڑپن

Why did we forget? Allah Almighty is all-powerful and is able to do everything. So it all happened by His Will. It means that if Allah (swt) wanted, we would have remembered it all, before, during the time in the womb and afterward. Before that, Ruh had known it, so, strangely, Ruh had forgotten. It could learn and understand. Otherwise, why would Allah (swt) pose the question? The Ruh heard and answered, so Ruh had the ability to talk. 

ہم کیوں بھول گئے؟ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے، ہر کام کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ لہٰذا یہ سب اس کی مرضی سے ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتے، تو ہم سب کچھ یاد رکھ سکتے تھے، ماں کی کوکھ میں رہتے ہوئے، اور اس کے بعد بھی۔ اس سے قبل روح کو یہ سب معلوم تھا، پھر حیرت انگیز طور پر روح نے سب کچھ بھلا دیا۔ وہ سیکھ سکتی تھی اور سمجھ سکتی تھی۔ ورنہ اللہ تعالیٰ روح سے سوال کیوں کرتے؟ روح نے سنا اور جواب دیا، تو اس کا مطلب ہے کہ روح بات کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ 

The same Ruh was made to be forgotten in the world. The reason is that the purpose of life, which Allah Almighty wanted, would not have been realized if we had kept the memory alive. There would have been no challenge and trial (Aazmaaish) that Allah (swt) wanted for us. From a logical perspective, how can we trust ourselves when we have no memory of what we saw? But Allah Almighty willed it. So, we accept it as such.

اُسی روح کو اس دُنیا میں سب بھول گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دنیا کا وہ مقصد جسے اللہ تعالیٰ چاہتے تھے، وہ پورا نہ ہوتا اگر ہم وہ یادیں اپنے ساتھ لے آتے۔ اس صورت میں نہ کوئی مشکلات ہوتیں اور نہ وہ آزمائش جو اللہ ہمارے لیے چاہتے تھے۔ منطقی نقطۂ نظر سے، جب ہمیں یہ یاد ہی نہیں کہ ہم نے کیا دیکھا، تو ہم خود پر بھروسہ کیسے کر سکتے ہیں؟ لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی تھی۔ لہٰذا ہم اسے ویسا ہی قبول کرتے ہیں جیسا کہ یہ ہے۔

2.3 Experience of Divine Love

۲.۳ تجربۂ عشقِ الٰہی

Another Divine gift that we have received is the experience of love in this world. If we had not tasted love, we would not get to know how much He loves us. He loves us 70 times (an Arabic expression for immeasurable) more than our Mothers. If we had not even felt a drop of it, how would we know what 70 times means? As an analogy, if you give a child sugar or something sweet, the child will remember and understand the taste. Then, if you give the child something like chocolate, he will know that it is sweet. If you give him something very sweet, then he will have an idea of what ‘very sweet’ means.

ایک اور الٰہی تحفہ جو ہمیں اس دنیا میں عطا ہوا ہے، وہ محبت کا تجربہ ہے۔ اگر ہم نے محبت کا ذائقہ نہ چکھا ہوتا، تو ہمیں یہ معلوم نہ ہوتا کہ اللہ تعالیٰ ہم سے کتنا محبت کرتا ہے۔ وہ ہمیں ہماری ہماری مائوں سے بھی ستر گنا (ایک عربی اظہار جو لا محدود محبت کی علامت ہے) زیادہ محبت کرتا ہے۔ اگر ہمیں اس محبت کا ایک قطرہ بھی محسوس نہ ہوتا، تو ہم کیسے جان سکتے کہ ستر گنا کا مطلب کیا ہے؟ مثال کے طور پر، اگر آپ کسی بچے کو شکر یا کوئی میٹھی چیز دیں، تو بچہ اس کا ذائقہ سمجھ جائے گا اور  یاد رکھے گا۔ پھر، اگر آپ اسے چاکلیٹ دیں، تو وہ جان لے گا کہ یہ بھی میٹھی ہے۔ اور اگر آپ اسے کوئی بہت ہی میٹھی چیز دیں، تو اسے معلوم ہوگا کہ “بہت میٹھی” کا کیا معنی ہوتا ہے۔

In the same way, Allah (saw) has provided us with the experience of being a Person (Insaan). So we understand the personhood of the Complete, Perfect Person (Insaan-e-Kaamil), Hazrat Muhammad (saw) and King of Humanity (Insaaniyat Ke Sultan). It is Haqiqat-e-Muhammadi (Spiritual Essence of Muhammad (saw)), which was the Essence of all the Prophets. Each and everything is an expression of Noor-e-Muhammadi (the Divine Light of Muhammad that Allah used to create everything). Without Noor-e-Muhammadi, nothing exists. It is His Divine Hidden Treasure (Chupa Huwa Khazana) that has manifested itself with different names.

بالکل اسی طرح، اللہ تعالیٰ نے ہمیں انسان ہونے کا تجربہ عطا کیا، تاکہ ہم کامل ترین انسان (انسانِ کامل)، حضرت محمد مصطفیٰؐ، اور انسانیت کے سلطان کو سمجھ سکیں۔ یہ حقیقتِ محمدیہؐ ہے جو تمام انبیاء کی اصل تھی۔ ہر چیز نورِ محمدیؐ کی تجلی ہے (وہی نور جس سے اللہ نے تمام مخلوقات کو تخلیق فرمایا)۔ نورِ محمدیؐ کے بغیر کچھ بھی موجود نہیں۔ یہ اس کا الٰہی پوشیدہ خزانہ ہے جو مختلف ناموں کے ساتھ ظاہر ہوا ہے۔

2.4 Prophetic Characteristics

۲.۴ نبوی اوصاف

The Companions of the Prophet (saw) used to take their wives and daughters to see the Prophet (saw) to learn about his character, etiquette and manners (Kirdaar). There was no backbiting, speaking ill of others (Gheebat), or false accusation (Bohtaan). He had no shady business practices when he worked for Bibi Khatija (rz), buying and selling goods from Mecca to other places. No lies, No cheating. People trusted him to keep their money and valuables safe. All aspects of his character were the best possible in every way. So all felt safe and welcome, like being with a wise, well-wisher, respected friend. It was a demonstration of the Love of Allah (saw), more than 70 times the love of the Mother, who is willing to sacrifice it all for her children. The Prophet (saw) explained that Allah (swt) was like that and much more.

صحابۂ کرامؓ اپنی بیویوں اور بیٹیوں کو رسول اکرمؐ کے پاس لے جاتے تھے تاکہ وہ آپؐ کے کردار، آداب اور اخلاق کے بارے میں سیکھ سکیں۔ آپؐ کی مجلس میں نہ غیبت تھی، نہ دوسروں کی برائی کرنا، اور نہ ہی جھوٹا الزام (بہتان) لگایا جاتا تھا۔ جب آپؐ حضرت خدیجہؓ  کے لیے مکہ سے دیگر مقامات تک سامان خریدنے اور بیچنے کی تجارت کرتے تھے، آپ کے کاروباری معاملات میں کوئی دھوکہ یا مشکوک عمل نہ ہوتا تھا۔ نہ جھوٹ، نہ فریب۔ لوگ آپؐ پر بھروسہ کرتے اور اپنی رقم اور قیمتی اشیاء آپ کے پاس امانتاً رکھواتے تھے۔ آپ کے کردار کے ہر پہلو میں بہترین اوصاف پائے جاتے تھے۔ ہر کوئی آپ کے پاس اپنے آپ کو محفوظ اور خوش آمدید محسوس کرتا، جیسے کسی دانشمند، خیرخواہ، اور معزز دوست کے ساتھ بیٹھا ہو۔ یہ اللہ تعالیٰ  کی محبت کا عملی مظاہرہ تھا، جو ماں کی محبت سے ستر گنا زیادہ ہے، وہ محبت جو اپنے بچوں کے لیے ہر چیز قربان کرنے کے لیے تیار ہوتی ہے۔ رسول اکرمؐ نے بیان فرمایا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ایسے ہی ہیں، بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ۔

Some Sheiyukh tell their Spiritual Successor (Jaan-Nasheen) that in public dealings, you are not to be discouraged. You will understand all that we have been through and are going through. Remember that if two ants bite me and only one ant bites you, from that one bite, you will learn what the pain of two ants biting you feels like. If a single ant has not bitten you, how will you understand the pain of the bite of many ants? That is the way to look at and assess things. You have to experience it yourself first and then you can extrapolate it to similar experiences.

بعض شیوخ اپنے روحانی جانشین سے فرماتے ہیں کہ عوامی معاملات میں تمہیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ تم سمجھ جاؤ گے کہ ہم نے کن حالات کا سامنا کیا ہے اور کر رہے ہیں۔ یاد رکھو کہ اگر دو چیونٹیاں مجھے کاٹیں اور تمہیں صرف ایک چیونٹی کاٹے، تو اس ایک کے کاٹنے سے تم وہ درد سمجھ جاؤ گے جو دو چیونٹیوں کے کاٹنے کا ہوتا ہے۔ لیکن اگر تمہیں ایک بھی چیونٹی نے نہ کاٹا ہو، تو تمہیں بہت سی چیونٹیوں کے کاٹنے کا درد کیسے سمجھ آئے گا؟ یہ وہ طریقہ ہے جس سے چیزوں کو دیکھنا اور پرکھنا چاہیے۔ پہلے تمہیں خود تجربہ کرنا ہوگا، تب ہی تم اس تجربے کو دیگر حالات پر منطبق کر سکتے ہو۔

In the same way, we have seen the character, in totality, of the Prophet (saw) and are satisfied to have understood him as a living example of the Divine. We must be satisfied with this because, for Allah (swt), we cannot see or even imagine how we can assess His Character. He is not a Person like any other. There is no way to measure the limits like we do for an ordinary person. But He has put this capability in us to assess the highest and the lowest, lower than the devils and higher than the angels, so one has the choice to aim for the highest aspirations or succumb to the lowest tendencies. Every Nation has had an example of the Character of the Prophet of the time and we have the luminary example of The Last Prophet.

اسی طرح، ہم نے نبی اکرمؐ کے کردار کو اس کی کامل صورت میں دیکھا اور اس بات پر مطمئن ہیں کہ ہم نے انہیں خدائی صفات کے جیتے جاگتے مظہر کے طور پر سمجھا۔ ہمیں اسی پر اکتفا کرنا چاہیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے معاملے میں نہ ہم انہیں دیکھ سکتے ہیں اور نہ یہ تصور کر سکتے ہیں کہ ہم ان کے کردار کا اندازہ کیسے لگائیں۔ وہ کسی انسان کی مانند نہیں ہیں۔ ان کی حد بندی کا کوئی پیمانہ نہیں، جیسے کہ ہم ایک عام انسان کے لیے کرتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ صلاحیت دی ہے کہ ہم اعلیٰ ترین اور ادنیٰ ترین کو جانچ سکیں، ادنیٰ وہ جو شیطان سے بھی کمتر ہو اور اعلیٰ وہ جو فرشتوں سے بھی بلند ہو۔ اس لیے انسان کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ اعلیٰ ترین مقاصد کو حاصل کرنے کا ارادہ کرے یا ادنیٰ ترین رغبات میں گِر جائے۔ ہر قوم کے پاس اس وقت کے نبی کے کردار کا نمونہ موجود رہا، اور ہمارے پاس آخری نبیؐ  کا روشن ترین نمونہ موجود ہے۔

2.5 Hayat-un-Nabi

۲.۵ حیات النبی

Here is one very important idea that may be new to some. You will have heard about the Life of the Prophet (saw) (Hayat-un-Nabi). It means that He is alive in every possible way, not just spiritually but physically. This also applies to those who have lived solely by Love for Allah (swt). Such Holy People (Auliya) have not died but are alive. Allah (swt) has said that He provides sustenance (Rizq) for them. We cannot see our own Ruh, so how can we see the one of a Wali? However, our Relationship (Nisbat) leads to the experience.

یہاں ایک نہایت اہم تصور پیش کیا گیا ہے جو بعض کے لیے نیا ہو سکتا ہے۔ آپ نے حیات النبیؐ کے بارے میں سنا ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر ممکن انداز میں زندہ ہیں، صرف روحانی طور پر نہیں بلکہ جسمانی طور پر بھی۔ یہ اصول ان پر بھی لاگو ہوتا ہے جو صرف اللہ تعالیٰ  کی محبت میں زندگی گزار چکے ہیں۔ ایسے مقدس افراد (اولیاء) فوت نہیں ہوتے بلکہ زندہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ ان کے لیے رزق فراہم کرتا ہے۔ اگر ہم اپنی روح کو نہیں دیکھ سکتے تو ولی کی روح کو کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ البتہ، ہماری نسبت اس تجربے کا باعث بنتی ہے۔

2.6 Trustworthiness of the Prophet (saw)

۲.۶ رسول اللہؐ  کی امانت داری

The men, who had brought their wives, asked them how they felt when they went to see Muhammad (saw). They responded that they do not trust their husbands when they are out of sight. But with Hazrat Muhammad (saw), they see and feel total respect and trust. They wonder how his God (Khuda) would be if he were like that. He loves people more than 70 times more than their Mothers. Not just Muslims but people of all the Faiths trusted him and his Allah Almighty. This sense of trust included the Quresh of Mecca.

وہ مرد جو اپنی بیویوں کو لائے تھے، ان سے پوچھاگیا کہ وہ کیسا محسوس کرتی ہیں جب وہ محمدؐ سے ملاقات کرنے جاتے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ جب ان کے شوہر نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں تو وہ ان پر اعتماد نہیں کرتیں۔ لیکن حضرت محمدؐ کے ساتھ وہ مکمل عزت اور اعتماد محسوس کرتی ہیں۔ وہ حیرت کرتی ہیں کہ اگر وہ ایسے ہیں تو ان کے خدا کیسے ہوں گے۔ آپؐ لوگوں سے ان کی ماؤں سے ستر گنا زیادہ محبت کرتے ہیں۔ نہ صرف مسلمان بلکہ دیگر مذاہب کے لوگ بھی ان پر اور ان کے اللہ تعالیٰ پر اعتماد کرتے تھے۔ اس اعتماد میں مکہ کے قریش بھی شامل تھے۔

2.7 Poetic Revelations of the Divine Messages

۲.۷ الہٰی پیغامات کی شاعرانہ تجلیات

Persons like Maulana Rumi (ra), Hafiz Sherazi (ra), Maulana Jami (ra) and others were Abdal (a special category of Auliya). In a State of Keif-oMasti (spiritual intoxication), they let out the Divine Secrets with poetic elegance, all for a Divine Purpose. Today, in the West and all over the world, there is an implicit belief in Tasawwuf (The Sufi Path), even though they don’t realize it. It is because Masnavi of Rumi (ra) has been translated into many languages and is present in many homes. It is a miracle that, by the will of God, Divine sayings and Revelations are known by many people by different names of the people.

مولانا رومیؒ، حافظ شیرازیؒ، مولانا جامیؒ اور دیگر حضرات جیسی ہستیاں ابدال (اولیاء کرام کی ایک خاص جماعت) کی صف میں شامل تھے۔ وہ کیف و مستی کی حالت میں الہٰی رازوں کو شاعرانہ لطافت کے ساتھ آشکار کرتے تھے، اور یہ سب ایک الہٰی مقصد کے تحت ہوتا تھا۔ آج مغرب میں اور دنیا بھر میں تصوف (راہِ طریقت) پر ایک خاموش یقین پایا جاتا ہے، حالانکہ اکثر لوگ اسے سمجھتے نہیں۔ یہ اس لیے ہے کہ مولانا رومیؒ کی مثنوی کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے اور یہ بے شمار گھروں میں موجود ہے۔ یہ ایک معجزہ ہے کہ اللہ کے حکم سے الہٰی اقوال اور انکشافات مختلف ناموں سے کئی لوگوں تک پہنچ چکے ہیں۔

Most often, people refer to the name of Maulana Rumi (ra). His magnificent Discourse (Masnavi) was not in Farsi. It was in the old Pahlavi language. It was like a translation of the Holy Quran. Like the words in the Holy Quran, Pahlavi words have both surface and hidden deeper meanings for different people, especially for the Wali Allah, at all different spiritual levels. At every Spiritual Station, the meaning changes. It is a miracle. Muslims read the Holy Quran; the meaning is different for a Momin (Believer) and a Mohsin (beneficent). It is not different wording; all are read correctly, but the meaning changes. The same is true for the Masnavi. People at the basic level of understanding will not be able to assess the knowledge of the Auliya at the higher spiritual levels.

اکثر  اوقات، لوگ مولانا رومیؒ کے نام کا حوالہ دیتے ہیں۔ ان کی عظیم الشان تصنیف، مثنوی، فارسی زبان میں نہیں تھی بلکہ قدیم پہلوی زبان میں تھی۔ یہ گویا قرآن مجید کا ترجمہ تھا۔ جیسے قرآن مجید کے الفاظ میں ظاہری اور پوشیدہ، گہرے معانی ہوتے ہیں، ویسے ہی پہلوی زبان کے الفاظ میں مختلف لوگوں، خصوصاً اولیاء اللہ کے لیے، ہر روحانی درجے پر معانی مختلف ہوتے ہیں۔ ہر روحانی مقام پر ان معانوں میں تبدیلی آتی ہے۔ یہ ایک معجزہ ہے۔ مسلمان قرآن مجید پڑھتے ہیں؛ مومن کے لیے اس کا مفہوم کچھ اور ہوتا ہے اور محسن کے لیے کچھ اور۔ الفاظ میں فرق نہیں ہوتا؛ سب الفاظ درست پڑھے جاتے ہیں، لیکن معانی بدل جاتے ہیں۔ مثنوی کے بارے میں بھی یہی بات سچ ہے۔ ابتدائی سطح کی سمجھ رکھنے والے لوگ اعلیٰ روحانی مدارج پر فائز اولیاء کے علم کو سمجھنے سے قاصر رہیں گے۔

2.8 Prophetic Traditions and Happenings

۲.۸ انبیاء کی تعلیمات اور واقعات

Faith in Allah (swt) is explicit in the Quran and Hadith Qudsi (The Sayings that are not from Rasool Allah (saw) but from Allah (swt) being professed by the tongue of the Messenger (saw)). Jesus (as), known as Isa Ibn Marium (Son of Mary), had a unique Divine experience from the beginning. His birth was a miracle; he was conceived and born without a Father. For people, it was unbelievable because no other woman had ever had such a child. Bibi Marium (as) was a most pious, truthful lady, but people had a hard time believing her because of their belief system and practices at that time. 

اللہ تعالیٰ پر ایمان قرآن مجید اور حدیثِ قدسی (وہ اقوال جو رسول اللہؐ کی زبانِ مبارک سے بیان ہوئے لیکن ان کا منبع اللہ تعالیٰ ہیں) میں واضح طور پر موجود ہے۔ عیسیٰؑ، جو عیسیٰ ابن مریمؑ کے نام سے معروف ہیں، ابتدا ہی سے ایک منفرد الٰہی تجربے کے حامل تھے۔ ان کی پیدائش ایک معجزہ تھی؛ ان کی تخلیق اور ولادت والد کے بغیر ہوئی۔ لوگوں کے لیے یہ بات ناقابلِ یقین تھی کیونکہ کسی اور خاتون نے ایسا بچہ کبھی نہیں پیدا کیا تھا۔ بی بی مریمؑ نہایت پرہیزگار اور صادقہ خاتون تھیں، لیکن اس وقت کے عقائد اور معمولات کی بنا پر لوگوں کے لیے ان کی بات کو ماننا مشکل تھا۔

The Prophet (saw) has reported that he saw people sowing seeds, carefully putting together male and female seeds. For them, the same applies to people. Allah (saw) is not dependent on the male-female necessity. He wanted Jesus (as) to be unique and promised Jesus (as) that there would be no one like him again. Adam (as) was born without a mother or a father. Much credit is due to those who trusted Bibi Marium (as). Nowadays, if anyone made such a claim of a Virgin Birth, they would consider the woman as being mentally incompetent, not knowing who came to her.

رسول اللہؐ نے فرمایا ہے کہ انہوں نے لوگوں کو بیج بوتے ہوئے دیکھا، جہاں نر اور مادہ کے بیج کو احتیاط سے ایک ساتھ رکھا جا رہا تھا۔ ان کے لِیے، انسانوں پر بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے۔ لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس نر و مادہ کے محتاج نہیں ہیں۔ انہوں نے حضرت عیسیٰؑ کو منفرد بنانا چاہا اور انہیں وعدہ دیا کہ ان جیسا کوئی اور نہیں ہوگا۔ حضرت آدم ؑ بغیر ماں اور باپ کے پیدا ہوئے۔ حضرت مریمؑ پر اعتماد کرنے والوں کو بہت بڑا مقام حاصل ہے۔ آج کے دور میں اگر کوئی ایسی بات کرے کہ کسی کا جنم کنواری ماں سے ہوا ہے، تو لوگ اس عورت کو ذہنی طور پر معذور تصور کریں گے اور یہ نہ جانیں گے کہ اس عورت کے پاس کون آیا۔

2.9 The Reality of Jesus (ra)

۲.۹ حضرت عیسیٰؑ کی حقیقت

Jesus (as) was in a constant state of spiritual absorption (Jazb). He did not speak Arabic as such. It was a combination of Palestinian Arabic and Nasrani, a Jewish language. The way he introduced himself has been translated in the Bible, in English, as “Don’t you know who I am? I am That I Am”. “Am” here means The Divine Presence of Allah (swt). It indicates that there is nothing but Him (La Ilaha Illallah). Jesus (as) was speaking from his Divine Essence (Zaat) and confirming Tawheed (Oneness) that there is nothing in existence except Allah (swt) Himself. He, Jesus (as), was a Nabi (Prophet), like all the other Ambiya (Prophets). They all had the Divine qualities (Sifaat) that made their character trustworthy. Free from all adultery, lies, thinking ill of others and worldly greed. They were true to their word. They did what they said.

حضرت عیسیٰؑ ہمیشہ عالمِ جذب کی حالت میں رہتے تھے۔ وہ عربی زبان کو اُس انداز میں نہیں بولتے تھے جیسے آج ہم بولتے ہیں، بلکہ یہ فلسطینی عربی اور نصرانی، جو کہ یہودیوں کی ایک زبان تھی، کا امتزاج تھا۔ جس انداز میں انہوں نے اپنی ذات کا تعارف کروایا، اُس کا ترجمہ بائبل میں انگریزی زبان میں یوں کیا گیا: “کیا تم نہیں جانتے میں کون ہوں؟ میں وہ ہوں جو میں ہوں۔ یہاں “ہوں” سے مراد اللہ تعالیٰ کی الٰہی موجودگی ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ کے سوا کچھ بھی نہیں (لا الٰہ الا اللہ)۔ حضرت عیسیٰؑ اپنی الٰہی ذات سے کلام فرما رہے تھے اور توحید (وحدانیت) کی تصدیق کر رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور موجود نہیں۔ حضرت عیسیٰؑ بھی دیگر انبیاءؑ کی طرح نبی تھے۔ تمام انبیاءؑ میں الٰہی صفات موجود تھیں جن کی بدولت ان کا کردار قابلِ اعتماد تھا۔ وہ ہر قسم کی بدکاری، جھوٹ، بدگمانی اور دنیاوی حرص سے پاک تھے۔ وہ ہمیشہ اپنے قول کے سچے تھے اور جو کہتے تھے وہ کرتے تھے۔

People tested the character of Jesus (as) as they did for all the Prophets. They all exhibited the same Divine Quality and Character. They were all a manifestation of the Divine Essence of Muhammad (saw) (Noor-e-Muhammadi). That is why we are advised not to differentiate between the Ambiya. People realized that if they accepted their message, there would be nothing to worry about because they spoke the truth and kept their word.

حضرت عیسیٰؑ کے کردار کو اسی طرح پرکھا گیا جیسے تمام انبیاء کے ساتھ کیا گیا۔ تمام انبیاء نے ایک جیسی الٰہی صفات اور کردار کا مظاہرہ کیا۔ وہ سب نورِ محمدیؐ کے مظہر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں انبیاء کے درمیان فرق نہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ لوگوں نے یہ بات محسوس کی کہ اگر وہ ان کے پیغام کو قبول کرلیں تو انہیں کسی چیز کی فکر نہیں ہوگی کیونکہ انبیاء ہمیشہ سچ بولتے تھے اور اپنے وعدے پورے کرتے تھے۔

2.10 Trustworthiness Test

۲.۱۰ امانت داری کا امتحان

The unbelievers called the Prophet (saw) madman (Majnoon) but knew that he was truthful and trustworthy in every way (Al-Ameen). Trustworthiness is a test of the quality of character of human beings. There is a temptation to backbite, envy, tendency to think ill of others, to be jealous and harmful. Everyone has a positive self-image of the quality and the depth of their own character. We tend to think that we have a superior character to others, but we fail spectacularly when tested. In a tempting situation, our reaction challenges our self-evaluation. Imagine if a young, very attractive and inviting woman approaches a learned Religious Teacher of the Quran Majeed and Hadith Mubarak. She tells him, “I want to share a secret with you. I have not told you, but I am in love with you”. Then she comes closer and holds his hand. Tempted and embarrassed, he tells her jokingly, “You are just joking (Chall Jhooti)” to indicate his interest in her.

کفار نے نبی اکرمؐ کو دیوانہ (مجنون) کہا، لیکن وہ اس بات کو جانتے تھے کہ آپؐ ہر لحاظ سے سچے اور امانت دار (الامین) تھے۔ امانت داری انسانی کردار کی صفات کے امتحان کا پیمانہ ہے۔ غیبت کرنے، حسد کرنے، دوسروں کے بارے میں بدگمانی رکھنے، جلن یا نقصان پہنچانے کی طرف جھکاؤ ایک عام فطری آزمائش ہے۔ ہر شخص اپنے کردار کی خوبی اور گہرائی کے بارے میں مثبت تصور رکھتا ہے۔ ہم عموماً یہ سوچتے ہیں کہ ہمارا کردار دوسروں سے بہتر ہے، لیکن جب امتحان لیا جاتا ہے تو ہم بری طرح ناکام ہو جاتے ہیں۔ آزمائش کے وقت ہمارا ردعمل ہمارے خود ساختہ معیار کو چیلنج کرتا ہے۔ ذرا تصور کریں کہ اگر ایک نوجوان، نہایت حسین اور دلکش عورت کسی قرآن مجید اور حدیث مبارک کے جید عالم کے پاس آتی ہے اور کہتی ہے، “میں آپ کے ساتھ ایک راز شیئر کرنا چاہتی ہوں۔ میں نے آپ سے یہ کبھی نہیں کہا، لیکن میں آپ سے محبت کرتی ہوں۔” پھر وہ قریب آکر ان کا ہاتھ پکڑتی ہے۔ آزمائش اور شرمندگی کے عالم میں وہ عالم صاحب اس سے مذاقاً کہتے ہیں، “چل جھوٹی” تاکہ اپنی دلچسپی کا اظہار کریں۔

Some people misunderstand such a situation, which can lead to wrongful results. For example, those who have a very basic level of understanding of Masnavi Shareef regard this type of tempting situation as merely a Test, like Hazrat Shams Tabrez (ra) tested Maulana Rumi (ra) about various things. Nothing like this has been said about such testing in the Holy Quran or Hadith. If there had been such a case, Hazrat Muhammad (saw) would have done it. We have a fully documented account of his life and there is no evidence of any such testing. It may just be made up and is not true.

کچھ لوگ ایسی صورتحال کو غلط طور پر سمجھ لیتے ہیں، جو غلط نتائج کا سبب بن سکتی ہے۔ مثلاً، وہ لوگ جو مثنوی شریف کی بہت ابتدائی سطح کی سمجھ رکھتے ہیں، اس قسم کی آزمائش کو محض ایک امتحان سمجھتے ہیں، جیسے حضرت شمس تبریزؒ نے مولانا رومیؒ کو مختلف امور میں آزمایا تھا۔ قرآن مجید یا احادیث میں ایسی کسی آزمائش کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا ہے۔ اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو حضرت محمدؐ نے ضرور ایسا کیا ہوتا۔ آپؐ کی زندگی کا مکمل اور مستند ریکارڈ موجود ہے، اور اس میں ایسی کسی آزمائش کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ یہ محض ایک من گھڑت بات ہو سکتی ہے اور حقیقت پر مبنی نہیں۔

One who cannot rise above this level of thinking cannot be a Guide (Rahbar) for others.

جو شخص اس سطح کی سوچ سے بلند نہ ہو سکے، وہ دوسروں کے لیے رہنما (راہبر) نہیں بن سکتا۔

2.11 Being a Pious Well-Wisher

۲.۱۱ نیک خیرخواہ ہونا

There is another interesting true story of an 18-year-old Boy who landed in a difficult, challenging situation. There were some Guests in the house while his parents were away. The house was empty, so they invited some friends and brought a Prostitute from a Brothel to the house. They decided that they would send the Young Man into her room first. Since he is the de facto Householder, if he does it, then he would keep it a secret and vouch for them, if necessary. They woke him and told him that there was someone who wanted to meet and greet him. He had to go and meet her. The girl had been prepared for the boy to come. She should serve him first and then the rest.

ایک اور دلچسپ اور سچی کہانی، جو ایک 18 سالہ نوجوان لڑکے کے بارے میں ہے جو ایک مشکل صورتحال میں پھنس گیا۔اس کے  گھر میں کچھ مہمان موجود تھے جبکہ اس کے والدین کہیں باہر گئے ہوئے تھے۔ گھر خالی تھا، لہٰذا ان مہمانوں نے کچھ دوستوں کو بلایا اور ایک طوائف کو کوٹھے سے بلا کر گھر لے آئے۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ سب سے پہلے یہ نوجوان لڑکا اس کے کمرے میں جائے گا۔ چونکہ وہ عملی طور پر گھر کا نگران تھا، اگر وہ ایسا کر لیتا ہے تو وہ اس بات کو راز رکھے گااور ضرورت پڑنے پر ان کے لیے گواہی دے گا۔ انہوں نے لڑکے کو جگایا اور بتایا کہ کوئی اس سے ملاقات کرنا چاہتا ہے۔ اسے جا کر اس سے ملنا پڑا۔ لڑکی کو پہلے سے اس لڑکے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ اسے ہدایت دی گئی تھی کہ وہ سب سے پہلے اس کی خدمت کرے، پھر باقی سب کی۔

The boy went in. He had never touched a woman before. He felt odd facing this situation. Restraining his reaction, he asked her to get dressed, turned up the light and told her that he had not done such a thing before and had no intention of doing it now. He explained that he was a Believer, had read the Holy Quran with meaning and understood that when the devil (Shaitan) deceives a person, it becomes a difficult challenge, but Allah (swt) saves those He chooses.

لڑکا اندر گیا۔ اس نے کبھی کسی عورت کو ہاتھ نہیں لگایا تھا۔ اس صورتِ حال کا سامنا کرتے ہوئے اسے عجیب سا محسوس ہوا۔ اپنے جذبات کو قابو میں رکھتے ہوئے، اس نے خاتون سے کہا کہ وہ لباس پہن لیں، چراغ کی روشنی بڑھائی، اور کہا کہ اس نے کبھی ایسا کام نہیں کیا اور نہ ہی اب ایسا کام کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس نے وضاحت کی کہ وہ ایک مومن ہے، اس نے قرآنِ پاک کو معانی کے ساتھ پڑھا ہے اور یہ سمجھا ہے کہ جب شیطان (لعین) انسان کو دھوکہ دیتا ہے، تو یہ ایک مشکل آزمائش بن جاتی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو بچا لیتا ہے جنہیں وہ چن لیتا ہے۔

He continued that he had learned that if we turn away from Allah (swt), we go towards the devil and subsequent severe punishment. But if we hold on to Allah (swt) in love and devotion, then the devil cannot mislead us. He requested her not to be deceived by the devil. He was not a Wali Allah, just an ordinary person, but was convinced that if he started obeying the devil, then his whole life would be ruined. He would have to seek forgiveness. He advised her to seek forgiveness and promised her that Allah (swt) would reward her and someday, when she died, her grave would be lit up with Divine Light (Noor). He advised her emphatically not to do this type of work.

لڑکے نے کیا کہ اس نے یہ سیکھا ہے کہ اگر ہم اللہ تعالیٰ سے منہ موڑ لیں تو شیطان کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں سخت سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اگر ہم محبت اور عقیدت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو تھام لیں تو شیطان ہمیں گمراہ نہیں کر سکتا۔ اس لڑکے نے عورت سے درخواست کی کہ وہ شیطان کے دھوکے میں نہ آئے۔ وہ ولی اللہ نہیں تھا، محض ایک عام انسان تھے، لیکن اسے اس بات کا یقین تھا کہ اگر اس نے شیطان کی اطاعت شروع کر دی تو اس کی پوری زندگی برباد ہو جائے گی اور اسے توبہ کرنی پڑے گی۔ اس لڑکے نے عورت کو نصیحت کی کہ وہ توبہ کرے اور اسے یقین دلایا کہ اللہ تعالیٰ اسے انعام دے گا، اور کسی دن، جب وہ مر جائے گی، اس کی قبر الٰہی نور سے روشن ہو جائے گی۔ اس لڑکے نے عورت پر زور دیا کہ وہ اس قسم کا کام ہرگز نہ کرے۔

For the first time, she was moved by what she had heard. She put on her clothes and told him that these people would not take her home. She requested that he take her home or get someone to do that. So the boy called a relative, who came and took her home.

پہلی بار وہ عورت اس بات سے متاثر ہوئی جو اس نے سنا تھا۔ اس نے اپنے کپڑے پہنے اور اُس لڑکے سے کہا کہ یہ لوگ اسے گھر نہیں لے جائیں گے۔ اس عورت نے لڑکے سے درخواست کی کہ وہ اسے گھر پہنچا دے یا کسی اور سے یہ کام کروائے۔ چنانچہ اُس لڑکے نے اپنے ایک رشتہ دار کو بلایا، جو آیا اور اسے گھر لے گیا۔

All the Guests were puzzled by what had happened and found it to be very strange. They went to the Brothel and got their money back. Thus, a great Blessing happened. She asked them never to come back. The owner was not happy about the situation but told her that he respected her sincerity and would not ask her again to go anywhere. The girl thanked him and decided to learn sewing and become an expert tailor. She moved out and went to a nearby town, where she got married to a very simple man and started living an honorable life.

تمام مہمان اس واقعے پر حیران تھے اور جو کچھ ہوا، اسے بہت عجیب سمجھتے تھے۔ وہ طوائف گھر گئے اور اپنی رقم واپس لے لی۔ یوں ایک بڑی برکت کا ظہور ہوا۔ اس عورت نے ان سے درخواست کی کہ وہ دوبارہ وہاں نہ آئیں۔ مالک اس صورتحال سے خوش نہیں تھا، لیکن اس نے کہا کہ وہ اس کی اخلاص کی قدر کرتا ہے اور آئندہ اس سے کہیں جانے کو نہیں کہے گا۔ لڑکی نے اس کا شکریہ ادا کیا اور سلائی سیکھنے اور ماہر درزی بننے کا فیصلہ کیا۔ وہ وہاں سے چلی گئی اور قریب کے ایک قصبے میں جا بسی، جہاں اس کی شادی ایک سادہ مزاج آدمی سے ہوگئی اور اس نے ایک باعزت زندگی گزارنا شروع کی۔

This is an actual story. Not all people are like her and are not easily persuaded to change the course of their lives. At least one person was saved who began to fear Allah (swt) and turned towards good and righteousness. Her husband was a laborer. Both saved money, went back to school, got educated at the matriculation level and started keeping the company of good people.

یہ ایک حقیقی کہانی ہے۔ ہر کوئی اس خاتون کی طرح نہیں ہوتا اور اپنی زندگی کا رخ بدلنے پر آسانی سے آمادہ نہیں ہوتا۔ لیکن کم از کم ایک شخص ہدایت پا گیا، جس نے اللہ تعالیٰ کا خوف محسوس کیا اور بھلائی اور راستبازی کی طرف مائل ہو گیا۔ اس خاتون کا شوہر ایک مزدور تھا۔ دونوں نے پیسے جمع کیے، دوبارہ اسکول میں داخلہ لیا، میٹرک کی سطح تک تعلیم حاصل کی اور نیک لوگوں کی صحبت اختیار کی۔

The boy, now a young married Man, saw her on various occasions and gatherings, but she never recognized him and he never said anything to anybody about her previous life. She wore a shawl, like a lady with an elegant look. Later, that young boy, now a Family Man, found out that his young daughter had become friends with her daughter. It was a very happy ending.

وہ لڑکا، جو اب جوان شادی شدہ مرد بن چکا تھا، نے اسے مختلف مواقع اور محفلوں میں دیکھا، مگر اس خاتون نے اسے کبھی پہچانا نہیں اور نہ ہی اس نے کسی سے اس خاتون کی سابقہ زندگی کے بارے میں کچھ کہا۔ وہ خاتون ایک چادر اوڑھے ہوئے نظر آتی تھی، جیسے ایک باوقار اور نفیس خاتون۔ بعد میں، وہ جوان مرد، جو اب ایک خاندانی انسان تھا، کو معلوم ہوا کہ اس کی جوان بیٹی اس خاتون کی بیٹی کی دوست بن چکی ہے۔ یہ ایک انتہائی خوشگوار انجام تھا۔

This is an example of the extent of thinking well of others and being their well-wisher, not indulging in backbiting and thinking ill of others. Sarkar Aala Hazrat (ra) said that Hazrat Yousuf Shah Baba (ra) had taught his disciples not to do backbiting (Gheebat) even within themselves, not even in thought. Regard others as better than yourself and honor them. That is the basis of a Good Character. This is the quality and the way of a genuine Seeker (Dervish) without a need to flatter and exploit. For those on the Sufi Spiritual Path, always be conscious of whose hand you are holding. Mureedeen are like a family: spiritual children, daughters and sons of the Sheikh. Could you follow his example to the best possible extent?

یہ دوسروں کے حق میں نیک گمان رکھنے اور ان کے خیر خواہ ہونے کی ایک مثال ہے، کہ غیبت میں ملوث نہ ہوں اور دوسروں کے بارے میں بدگمانی نہ کریں۔ سرکار اعلیٰ حضرتؒ نے فرمایا کہ حضرت یوسف شاہ باباؒ نے اپنے مریدین کو یہ تعلیم دی تھی کہ وہ آپس میں بھی، حتیٰ کہ اپنے خیالات میں بھی، غیبت نہ کریں۔ دوسروں کو اپنے سے بہتر سمجھیں اور ان کی عزت کریں۔ یہی اچھے کردار کی بنیاد ہے۔ یہ ایک حقیقی طالب (درویش) کی صفت اور اس کا طریقہ ہے، جس میں خوشامد اور استحصال کی کوئی گنجائش نہیں۔ صوفی راہِ طریقت پر چلنے والوں کے لیے لازم ہے کہ وہ ہمیشہ اس بات کا شعور رکھیں کہ وہ کس کا ہاتھ تھامے ہوئے ہیں۔ مریدین ایک خاندان کی مانند ہوتے ہیں: شیخ کے روحانی بیٹے، بیٹیاں اور اولاد۔ کیا آپ ان کے اسوہ کو ممکنہ حد تک اپنانے کی کوشش کریں گے؟

2.12 Oneness of Being (Tawheed)

۲.۱۲ وحدت الوجود (توحید)

The Prophet (saw) lived a life of Oneness (Tawheed) based on trust. Whoever cannot Trust him cannot trust Allah (saw). If one thinks differently, then one has created one’s own Allah Almighty. Based on trust, we must believe that He is our Creator. Remember that trust is a gradual process, requiring patience to get well acquainted, much like we do with people.

نبی اکرمؐ نے توحید کی بنیاد پر ایک ایسی زندگی گزاری جو اعتماد پر مبنی تھی۔ جو شخص آپؐ پر اعتماد نہیں کرسکتا، وہ اللہ تعالیٰ پر بھی اعتماد نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی اس کے برعکس سوچتا ہے، تو اس نے اپنا خود ساختہ اللہ بنا لیا ہے۔ اعتماد کی بنیاد پر ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ وہی ہمارا خالق ہے۔ یاد رکھیں کہ اعتماد ایک تدریجی عمل ہے، جو صبر کا متقاضی ہے تاکہ ہم اچھی طرح سے واقفیت حاصل کرسکیں، جیسے ہم لوگوں کے ساتھ کرتے ہیں۔

2.13 Relationship with the Sheikh

۲.۱۳ شیخ کے ساتھ تعلق

There is no need to be shy in front of the Sheikh. Do not think that you are before a Great Holy Person (Bargah-e-Bazurg) and cannot be yourself. Please don’t judge others even if you know that someone lied to the Sheikh. Please don’t think ill of the person. Maybe the person will become shameful and change one day. Focus on your truthfulness. Honor everyone, offer Salam and talk with humility and love.

شیخ کے سامنے جھجک محسوس کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ مت سمجھیں کہ آپ ایک عظیم ولی اللہ (بارگاہِ بزرگ) کے سامنے ہیں اور خود کو ظاہر نہیں کر سکتے۔ براہِ کرم دوسروں پر فیصلہ صادر نہ کریں، چاہے آپ کو معلوم ہو کہ کسی نے شیخ سے جھوٹ بولا ہے۔ براہِ کرم اس شخص کے بارے میں بدگمانی نہ کریں۔ ممکن ہے کہ وہ شخص شرمندہ ہو جائے اور ایک دن تبدیل ہو جائے۔ اپنی سچائی پر توجہ مرکوز رکھیں۔ سب کا احترام کریں، سلام پیش کریں، اور عاجزی و محبت کے ساتھ گفتگو کریں۔

One thing very personal that Sarkar Baba Sahib (ra) shared about a change that he had made in himself. He used to swear. He sought forgiveness (Tauba) and gave it up altogether. Now, if people come back from those days, they will not believe that he was the same person who used to swear if you told them. They will tell you that it is unbelievable that he stopped swearing and has become even kinder and gentler than those earlier days. It was similar to what Baba Tajuddin (ra) did. He used to swear. All at once, he changed. People could not understand how it happened and he became so much kinder and more loving than before.

سرکار بابا صاحبؒ نے اپنے بارے میں ایک نہایت ذاتی تبدیلی کا ذکر فرمایا جو انہوں نے اپنی ذات میں کی تھی۔ پہلے وہ گالیاں دیا کرتے تھے۔ پھر انہوں نے توبہ کی اور اسے مکمل طور پر چھوڑ دیا۔ اب اگر ان دنوں کے لوگ واپس آ جائیں اور انہیں بتایا جائے کہ یہ وہی شخص ہے جو پہلے گالیاں دیا کرتا تھا، تو وہ یقین نہیں کریں گے۔ وہ کہیں گے کہ یہ ناقابل یقین ہے کہ انہوں نے گالیاں دینا چھوڑ دیا اور پہلے سے زیادہ شفیق اور نرم مزاج ہو گئے ہیں۔ یہ بالکل ویسا ہی تھا جیسا کہ بابا تاج الدینؒ نے کیا۔ وہ بھی گالیاں دیا کرتے تھے۔ پھر اچانک انہوں نے یہ عمل ترک کر دیا۔ لوگ سمجھ نہ سکے کہ یہ کیسے ہوا، اور وہ پہلے سے کہیں زیادہ مہربان اور محبت کرنے والے بن گئے۔

All this means is not to be fearful and afraid. True love of the Sheikh is with every Mureed. Nisbat is on the basis of love. Becoming a Mureed is not just a ceremonial event; it is treated as a customary way to commit to joining the Silsila and drinking the tea. It is very easy to treat it as a ceremonial act. But those who understand and recognize the significance of becoming a Mureed are different. They are people of love and become like his children, sons and daughters. They Trust their Murshid. They do not think that the Murshid is indirectly referring to them and check it out afterward by asking him about it. Murshid speaks to the welfare of everyone, not anyone in particular, for the education (Tarbiyat) for all, not personal for anyone. Consider it education for all, not just anyone in particular.

اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ خوف اور ڈر دل سے نکال دیا جائے۔ شیخ کی سچی محبت ہر مرید کے ساتھ ہوتی ہے۔ نسبت محبت کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے۔ مرید بننا محض ایک رسمی عمل نہیں ہے؛ بلکہ یہ سلسلے میں شامل ہونے کے عزم کا ایک طریقہ ہے، جسے عام طور پر چائے پینے کی رسم کے طور پر سمجھ لیا جاتا ہے۔ اسے رسمی عمل کے طور پر لینا بہت آسان ہے، لیکن وہ لوگ جو مرید بننے کی اہمیت کو سمجھتے اور پہچانتے ہیں، ان سے مختلف ہوتے ہیں۔ یہ محبت کرنے والے لوگ ہیں اور شیخ کے بیٹوں اور بیٹیوں کی طرح ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے مرشد پر اعتماد کرتے ہیں۔ وہ یہ گمان نہیں کرتے کہ مرشد اشارۃً انہیں کچھ کہہ رہے ہیں اور پھر اس کی تصدیق کرنے کے لیے بعد میں ان سے پوچھتے ہیں۔ مرشد سب کی بھلائی کے لیے بات کرتے ہیں، نہ کہ کسی خاص فرد کے لیے۔ ان کی تعلیم (تربیت) سب کے لیے ہوتی ہے، کسی ایک کے لیے مخصوص نہیں۔ اس تعلیم کو سب کے لیے سمجھا جائے، نہ کہ صرف کسی خاص فرد کے لیے۔

3.0 Concluding Statement

۳.۰ اختتامی بیان

This discourse provides a logical explanation of the key concepts of the Sufi Way. Understanding these is the foundation for personal spiritual development and a practical guide to living a full and fulfilling life.

یہ خطبہ تصوف کے اہم تصورات کی منطقی وضاحت فراہم کرتا ہے۔ ان تصورات کو سمجھنا ذاتی روحانی ترقی کی بنیاد ہے اور ایک مکمل اور بامعنی زندگی گزارنے کے لیے عملی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔

Could we guide you on the straight path?

کیا ہم آپ کو سیدھے راستے پر گامزن کر سکتے ہیں؟