20120225 | Albeyli Mehfil

1.0 Introduction

1.0 تعارُف

The main topic of this discourse is “shortening distance,” which is a way to develop a spiritual relationship with Bazurgan and experience their presence wherever you are. This unusual topic is beautifully explained through analogies and practical examples.

اس خطبہ کا مرکزی موضوع ”فاصلے کم کرنا“ ہے، جو بزرگوں کے ساتھ ایک روحانی تعلق قائم کرنے اور جہاں کہیں بھی ہوں ان کی موجودگی کا تجربہ کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ اس غیرمعمولی موضوع کو نہایت خوبصورتی سے تمثیلوں اور عملی مثالوں کے ذریعے بیان کیا گیا ہے۔

2.0 Highlights

2.0 جھلکیاں

2.1 Shortening the Distance

2.1 فاصلے کم کرنا

One day, Sarkar Aala Hazrat (ra) was recounting an event to Sarkar Baba Sahib (ra). He mentioned a memorable experience he had with Sarkar Yousuf Shah Baba (ra).

ایک دن سرکار اعلیٰ حضرتؒ سرکار بابا صاحبؒ سے ایک واقعہ بیان فرما رہے تھے۔ انہوں نے سرکار یوسف شاہ باباؒ کے ساتھ پیش آنے والا ایک یادگار تجربہ ذکر کیا۔

He recounted that, in his younger days, one evening he was with Sarkar Yousuf Shah Baba (ra), who was speaking about Nagpur and Hazrat Baba Tajuddin (ra) with such deep love and sincerity that it felt as if it were happening at that very moment. As a result, the listeners were deeply moved, overwhelmed by emotions and desires they could hardly contain.

انہوں نے بتایا کہ ان کے نوجوانی کے دنوں میں، ایک شام وہ سرکار یوسف شاہ باباؒ کے ساتھ تھے۔ اس وقت سرکار یوسف شاہ بابؒ نہایت محبت اور خلوص کے ساتھ ناگپور اور حضرت بابا تاج الدینؒ کا ذکر کر رہے تھے، یہاں تک کہ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ منظر اسی لمحے پیش آ رہا ہو۔ اس گفتگو کے نتیجے میں سامعین اتنے متاثر ہوئے کہ ان کے جذبات اور خواہشات قابو میں نہ رہ سکیں۔

After hearing this discourse, they approached Sarkar Yousuf Shah Baba (ra) to seek permission to travel to Nagpur for a few days. He happily granted them permission.

اس گفتگو کے بعد، سامعین سرکار یوسف شاہ باباؒ کے پاس جا کر چند دنوں کے لیے ناگپور جانے کی اجازت طلب کرنے لگے۔ انہوں نے خوشی سے اجازت دے دی۔

Sarkar Aala Hazrat (ra) also experienced this overwhelming desire and joined the line to seek permission to leave for Nagpur that evening or the next day. Once everyone had finished asking, it was finally his turn. He approached Sarkar Yousuf Shah Baba (ra) with the same request. Surprisingly, instead of granting permission, Sarkar Yousuf Shah Baba (ra) said, “Asghar, you bring Nagpur here.”

سرکار اعلیٰ حضرتؒ پر بھی یہی خواہش غالب آ گئی، اور وہ بھی اجازت طلب کرنے والوں کی قطار میں شامل ہو گئے تاکہ اس شام یا اگلے دن ناگپور روانہ ہو سکیں۔ جب سب لوگ اپنی درخواستیں پیش کر چکے، تو آخر کار سرکار اعلیٰ حضرتؒ کی باری آئی۔ انہوں نے سرکار یوسف شاہ باباؒ سے وہی درخواست کی۔ حیران کن طور پر، سرکار یوسف شاہ باباؒ نے اجازت دینے کے بجائے فرمایا، ”اصغر، تم ناگپور یہاں لے آؤ۔“

Why did he say that? We can speculate that Sarkar Aala Hazrat (ra) often experienced intense spiritual absorption (Jazb) for extended periods. There may have been concern that, away from home and while traveling, he might undergo some difficulty. So, it was considered better not to take that risk. That was the speculation, but the real reason was very different. This will be explained later in these highlights.

انہوں نے ایسا کیوں فرمایا؟ اس بارے میں قیاس کیا جا سکتا ہے کہ سرکار اعلیٰ حضرتؒ اکثر طویل عرصے تک شدید روحانی جذب میں مبتلا رہتے تھے۔ شاید یہ اندیشہ تھا کہ گھر سے دور یا سفر کے دوران انہیں کسی دشواری کا سامنا ہو سکتا ہے۔ لہٰذا یہ مناسب سمجھا گیا کہ اس خطرے سے بچا جائے۔ یہ تو ایک قیاس تھا، لیکن اصل وجہ بہت مختلف تھی۔ اس کا ذکر ان جھلکیوں میں آگے جا کر کیا جائے گا۔

After Sarkar Aala Hazrat (ra) related the above event, he turned to Sarkar Baba Sahib (ra) and asked, “Did it happen?” Sarkar Baba Sahib (ra) replied that he did not know but assumed it must have occurred if it was stated. Sarkar Aala Hazrat (ra) confirmed that it did happen. Then he raised the next question: “How did it happen?” Sarkar Aala Hazrat (ra) proceeded to explain.

جب سرکار اعلیٰ حضرتؒ نے مذکورہ واقعہ بیان کیا تو انہوں نے سرکار بابا صاحبؒ کی طرف رخ کرکے پوچھا، ”کیا یہ واقعہ پیش آیا؟“ سرکار بابا صاحبؒ نے جواب دیا کہ انہیں علم نہیں، مگر انہوں نے قیاس کیا کہ اگر بیان کیا گیا ہے تو یقینا ہوا ہوگا۔ سرکار اعلیٰ حضرتؒ نے تصدیق کی کہ یہ واقعہ واقعی پیش آیا۔ پھر انہوں نے اگلا سوال اٹھایا: ”یہ کیسے ہوا؟“ سرکار اعلیٰ حضرتؒ نے وضاحت جاری رکھی۔

First, he asked Sarkar Baba Sahib (ra) whether he had been to London. Upon receiving a yes, he continued by suggesting Sarkar Baba Sahib (ra) imagine he was in a hotel or home there, with doors and windows closed, about to sleep. Even with eyes closed, one would be absolutely certain of being in London—not anywhere else.

سب سے پہلے، انہوں نے سرکار بابا صاحبؒ سے پوچھا کہ کیا وہ لندن جا چکے ہیں۔ جب انہیں مثبت جواب ملا تو انہوں نے کہا کہ تصور کریں کہ آپ کسی ہوٹل یا گھر میں ہیں، دروازے اور کھڑکیاں بند ہیں، اور آپ سونے کے قریب ہیں۔ اگرچہ آنکھیں بند ہیں، لیکن آپ کو مکمل یقین ہوگا کہ آپ لندن میں ہیں—کسی اور جگہ نہیں۔

Alternatively, when you dream, you may see yourself in London, but in reality, you’re sleeping somewhere else. However, in the dream, you are entirely convinced you’re in London, just as much as when you actually were there. It could feel like you’ve seen or experienced it before, or like you’ve never been there; still, you’re sure you’re in London.

اس کے برعکس، جب آپ خواب دیکھتے ہیں تو ممکن ہے کہ آپ خود کو لندن میں دیکھیں، لیکن حقیقت میں آپ کسی اور جگہ سو رہے ہوتے ہیں۔ تاہم، خواب میں آپ کو مکمل یقین ہوتا ہے کہ آپ لندن میں ہیں، بالکل ویسا ہی جیسے جب آپ حقیقت میں وہاں موجود تھے۔ یہ احساس ہو سکتا ہے کہ آپ پہلے بھی وہاں جا چکے ہیں، یا ایسا کہ آپ نے کبھی وہاں قدم نہیں رکھا؛ پھر بھی، آپ یقین رکھتے ہیں کہ آپ لندن میں ہیں۔

Sarkar Baba Sahib (ra) added that people sometimes dream about being in Makkah Muazzama or Madinah al-Munawwarah. During Fatiha, someone once experienced being in Madinah Shareef (despite never having gone there). This happened while he was awake with Sarkar Baba Sahib (ra). He accurately described things that ordinary people do not see. Sarkar Baba Sahib (ra) had seen these things himself and confirmed that the man’s vision was real.

سرکار بابا صاحبؒ نے مزید فرمایا کہ لوگ بعض اوقات خواب میں خود کو مکہ معظمہ یا مدینہ منورہ میں دیکھتے ہیں۔ ایک دفعہ فاتحہ کے دوران ایک شخص نے مدینہ شریف میں ہونے کا تجربہ کیا (حالانکہ وہ کبھی وہاں نہیں گیا تھا)۔ یہ اس وقت ہوا جب وہ سرکار بابا صاحبؒ کے ساتھ جاگ رہا تھا۔ اس نے ان چیزوں کو بیان کیا جو عام لوگ نہیں دیکھ سکتے۔ سرکار بابا صاحبؒ نے خود وہ چیزیں دیکھی تھیں اور اس شخص کے مشاہدے کی تصدیق کی کہ وہ حقیقت پر مبنی تھا۔

Returning to the story of Hazrat Yousuf Shah Baba (ra) telling Sarkar Aala Hazrat (ra), “Asghar, bring Nagpur here,” Sarkar Baba Sahib (ra) asked, “Who was talking to him?” At the time of this incident, Hazrat Yousuf Shah Baba (ra) was not his Murshid. Likewise, Sarkar Baba Sahib (ra) did not know Asghar Sahib; he only knew Hazrat Baba Albeyle Shah Yousufi (ra). Moreover, Sarkar Baba Sahib (ra) did not know the person (Hazrat Yousuf Shah Baba (ra)) that Sarkar Aala Hazrat (ra) was describing. Both individuals from that era were strangers to him. It is similar to Sarkar Baba Sahib (ra) talking about his younger days: “When I was a young man…” We have no relationship with that younger man. None whatsoever. Our relationship is only with Aaqayi wa Maulayi, Hazrat Baba Shah Mehmood Yousufi (ra).

واپس حضرت یوسف شاہ باباؒ کی اس کہانی پر آتے ہیں جب انہوں نے سرکار اعلیٰ حضرتؒ سے کہا، ”اصغر، ناگپور یہاں لے آؤ۔“ سرکار بابا صاحبؒ نے پوچھا، ”یہ ان سے بات کون کر رہا تھا؟“ اس واقعے کے وقت حضرت یوسف شاہ باباؒ سرکار اعلیٰ حضرتؒ کے مرشد نہیں تھے۔ اسی طرح، سرکار بابا صاحبؒ اصغر صاحب کو نہیں جانتے تھے؛ وہ صرف حضرت بابا البیلے شاہ یوسفیؒ کو جانتے تھے۔ مزید یہ کہ سرکار بابا صاحبؒ اس شخصیت (حضرت یوسف شاہ باباؒ) سے واقف نہیں تھے جن کا ذکر سرکار اعلیٰ حضرتؒ کر رہے تھے۔ اس زمانے کے دونوں افراد سرکار بابا صاحبؒ کے لیے اجنبی تھے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے سرکار بابا صاحبؒ اپنے جوانی کے دنوں کی بات کریں: ”جب میں جوان تھا…“ ہمارے لیے اس جوان آدمی سے کوئی تعلق نہیں۔ بالکل نہیں۔ ہمارا تعلق صرف آقائی و مولائی، حضرت بابا شاہ محمود یوسفیؒ سے ہے۔

Hazrat Ghous Muhammad Baba Yousuf Shah Taji (ra), Tajul Auliya, Tajul Millat wa-Deen, Shahen Shah-e-Haft Aqleem, and Hazrat Syed Muhammad Baba Tajuddin Auliya (ra)—these are different names and titles, but for us, whose names are these? Who are they? They are our Shajara (Spiritual Ancestry). Our Nisbat (Spiritual Bond) is with them.

حضرت غوث محمد بابا یوسف شاہ تاجیؒ، تاج الاولیا، تاج الملت و الدین، شاہنشاہِ ہفت اقلیم، اور حضرت سید محمد بابا تاج الدین اولیاؒ—یہ مختلف نام اور القابات ہیں، لیکن ہمارے لیے یہ کس کے نام ہیں؟ یہ کون ہیں؟ یہ ہمارا شجرہ (روحانی نسب) ہیں۔ ہماری نسبت (روحانی تعلق) ان سے ہے۔

When we hear about Greek gods and idol worship, we feel estranged from those peoples and eras. Similarly, we view people like Abu Jahl and Abu Lahab as idol worshippers without recognizing that we too worship idols. Idol worship is what we do. After hearing about Hazrat Albeyle Shah Baba (ra), Hazrat Yousuf Shah Baba (ra), and Hazrat Baba Tajuddin (ra), we may ask: Who should we call upon? So many Sufi Sheikhs to call upon for help. Who is the Real One we should call upon? We must not be ashamed of such thoughts. It happens to everyone, and it is good that it does, because it forces us to think, reflect, and find the right direction.

جب ہم یونانی دیوتاؤں اور بت پرستی کے بارے میں سنتے ہیں تو ہمیں ان قوموں اور زمانوں سے بیگانگی محسوس ہوتی ہے۔ اسی طرح، ہم ابو جہل اور ابو لہب جیسے لوگوں کو بت پرست سمجھتے ہیں بغیر یہ سوچے کہ ہم بھی بت پرست ہیں۔ بت پرستی وہی ہے جو ہم کرتے ہیں۔ جب ہم حضرت البیلے شاہ باباؒ، حضرت یوسف شاہ باباؒ، اور حضرت بابا تاج الدینؒ کے بارے میں سنتے ہیں، تو ہم پوچھ سکتے ہیں: ہم کس کو پکاریں؟ اتنے سارے صوفی شیوخ کو مدد کے لیے پکارنے کو کہا جاتا ہے۔ اصل میں ہمیں کس کو پکارنا چاہیے؟ ہمیں ایسی سوچوں پر شرمندہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ سب کے ساتھ ہوتا ہے، اور یہ اچھا ہے کہ ہوتا ہے، کیونکہ یہ ہمیں سوچنے، غور کرنے، اور صحیح سمت تلاش کرنے پر مجبور کرتا ہے۔

Some conclude that they have only one Baba, the Sheikh they consider theirs. Others think that if we have joined the Yousufi Silsila, we should look only to Sarkar Yousuf Shah Baba (ra). People in Nagpur might think of Hazrat Baba Tajuddin (ra) as the one to call upon. Sarkar Baba Sahib (ra) said that, to settle his own uncertainty, he decided to ask Sarkar Aala Hazrat (ra) with some trepidation: Who was greater—Rasool’Allah (saw) or Sarkar Yousuf Shah Baba (ra)? Recognizing the genuine concern behind the question, Sarkar Aala Hazrat (ra) responded immediately, “Without a doubt, Rasool’Allah (saw) is the Greatest.” Then, looking at Sarkar Baba Sahib (ra), he added, “Love that comes by any of his means is the same.” In other words, all that comes your way is given to you by Rasool’Allah (saw). All are names of Rasool’Allah (saw), whether Mustafa, Muhammad, or Mehmood. Have complete faith (Yaqeen-e-Kamil) that there is only One Baba. Repent and seek forgiveness (Tauba) if you have ever thought otherwise. Differentiating by name (Naam Kahani) is idol worship. Change your direction (Rukh) toward Madinah Shareef and the One and Only Baba, who appears in different images and manifestations but is still the same Baba Muhammad Mustafa (saw).

بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کے صرف ایک ہی بابا ہیں، وہ شیخ جنہیں وہ اپنا مانتے ہیں۔ دوسرے یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر ہم یوسفی سلسلے میں شامل ہو گئے ہیں تو ہمیں صرف سرکار یوسف شاہ باباؒ کی طرف دیکھنا چاہیے۔ ناگپور کے لوگ حضرت بابا تاج الدینؒ کو ہی پکارتے ہوں گے۔ سرکار بابا صاحبؒ نے فرمایا کہ اپنی الجھن کو دور کرنے کے لیے انہوں نے کچھ جھجک کے ساتھ سرکار اعلیٰ حضرتؒ سے پوچھنے کا فیصلہ کیا: کون برتر ہیں—رسول اللہؐ  یا سرکار یوسف شاہ باباؒ؟ سرکار اعلیٰ حضرتؒ نے سوال کے پیچھے چھپے خلوص کو پہچانتے ہوئے فوراً جواب دیا: ”بلا شبہ رسول اللہؐ سب سے برتر ہیں۔“ پھر سرکار بابا صاحبؒ کی طرف دیکھ کر مزید فرمایا، ”محبت جو ان کے کسی بھی ذریعہ سے ملے، وہ ایک ہی ہے۔“ یعنی، جو کچھ بھی آپ کو ملتا ہے، وہ رسول اللہؐ کے توسط سے ملتا ہے۔ چاہے وہ نام مصطفی ہو، محمد ہو، یا محمود، سب رسول اللہؐ  کے نام ہیں۔ اس پر مکمل یقین (یقین کامل) رکھیں کہ صرف ایک ہی بابا ہیں۔ اگر کبھی اور طرح سوچا ہو تو توبہ کریں اور معافی مانگیں۔ نام کے فرق کو ماننا (نام کہانی) بت پرستی ہے۔ اپنا رخ مدینہ شریف کی طرف موڑیں اور ایک ہی بابا کی طرف دیکھیں، جو مختلف صورتوں اور تجلیات میں ظاہر ہوتے ہیں، لیکن وہی بابا محمد مصطفیؐ ہیں۔

At times, Buzurgan-e-Deen (Spiritual Elders) and Prophets who had the privilege of visiting the Divine Court (Darbar-e-Ilaahi) were asked what they saw there. Their general response was that each saw himself in that presence. They saw Allah (swt) in their own form. When there is true love, it becomes reality: The lover takes on the appearance of the Beloved. Once the Nisbat (Spiritual Bond) is established, one becomes convinced that what they are seeing is truly themselves. There is no difference anymore.

کبھی کبھار بزرگانِ دین اور انبیاء کرام، جنہیں دربارِ الٰہی میں حاضر ہونے کا شرف ملا، سے پوچھا جاتا تھا کہ انہوں نے وہاں کیا دیکھا۔ ان کا عمومی جواب یہ ہوتا تھا کہ انہوں نے خود کو اس حضوری میں دیکھا۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو اپنی ہی صورت میں دیکھا۔ جب محبت حقیقی ہو تو وہ حقیقت بن جاتی ہے: عاشق محبوب کی صورت اپنا لیتا ہے۔ جب نسبت قائم ہو جائے تو انسان یقین کر لیتا ہے کہ وہ جو دیکھ رہا ہے، دراصل خود کو ہی دیکھ رہا ہے۔ اس وقت کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔

If you truly believe in Madinah Waley Baba (saw), then by whatever name or appearance you recognize him, over time you will gradually take on his likeness. This is not just a philosophy; it is a reality. Doubt will vanish. Your experience, through Ilm-ul-Yaqeen (Knowledge-Certainty) and Ain-ul-Yaqeen (Vision-Certainty), will be that you are his and he is yours. Once you reach this Station and invoke “Ya Hayyo, Ya Qayyum” (the Ever-Living, the Self-Sustaining), you feel the Power and Glory of Allah Almighty. With such love and certainty of faith, you can experience the Fragrance of Rasool’Allah (saw) (Khushbu-e-Rasool). So, if you can feel and see him here, what is the issue with bringing Madinah here? When Hazrat Muhammad Rasool’Allah (saw) comes into your heart and soul, Madinah Shareef follows.

اگر آپ مدینہ والے باباؐ پر حقیقی یقین رکھتے ہیں، تو جس نام یا شکل میں آپ انہیں پہچانتے ہیں، وقت کے ساتھ آپ ان کی مشابہت اختیار کر لیں گے۔ یہ محض فلسفہ نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ شک ختم ہو جائے گا۔ علم الیقین اور عین الیقین کے ذریعے آپ کا تجربہ یہ ہوگا کہ آپ ان کے ہیں اور وہ آپ کے ہیں۔ جب آپ اس مقام تک پہنچ جاتے ہیں اور ”یا حی، یا قیوم“ (زندہ و قائم) کا ذکر کرتے ہیں، تو آپ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور جلال کا احساس کرتے ہیں۔ ایسے عشق اور ایمان کی یقینیت کے ساتھ، آپ خوشبوئے رسولؐ کا تجربہ کر سکتے ہیں۔ پس، اگر آپ یہاں ان کی موجودگی کو محسوس اور دیکھ سکتے ہیں، تو مدینہ یہاں لانے میں کیا رکاوٹ ہے؟ جب حضرت محمد رسول اللہؐ آپ کے دل اور روح میں داخل ہو جاتے ہیں، تو مدینہ شریف بھی ساتھ آ جاتا ہے۔

Thus, the instruction of Sarkar Yousuf Shah Baba (ra) to Sarkar Aala Hazrat (ra), “Bring Nagpur here,” did indeed happen. After that, it felt as if it had always been that way. It became easy to believe and experience the reality of that request, because Nagpuri Baba, Hazrat Baba Tajuddin (ra), had been there all along. Otherwise, to whom had Sarkar Aala Hazrat (ra) been paying homage all this time? Whose hand had he been kissing? Whose feet had he been embracing? It was Nagpuri Baba, Hazrat Baba Tajuddin (ra).

چنانچہ سرکار یوسف شاہ باباؒ کا سرکار اعلیٰ حضرتؒ کو یہ حکم، ”ناگپور کو یہاں لے آؤ،“ واقعی واقع ہوا۔ اس کے بعد ایسا محسوس ہوا جیسے یہ ہمیشہ سے ایسے ہی تھا۔ اس درخواست کی حقیقت کو ماننا اور محسوس کرنا آسان ہو گیا، کیونکہ ناگپوری بابا حضرت بابا تاج الدینؒ وہاں ہمیشہ موجود تھے۔ ورنہ، سرکار اعلیٰ حضرتؒ کس کو خراج عقیدت پیش کرتے رہے تھے؟ کس کا ہاتھ چوم رہے تھے؟ کس کے قدموں سے لپٹ رہے تھے؟ یہ ناگپوری بابا حضرت بابا تاج الدینؒ تھے۔

Once, Sarkar Yousuf Shah Baba (ra) took Sarkar Aala Hazrat (ra) to a graveyard where there was a very old room with two graves. He stayed outside and told Sarkar Aala Hazrat (ra) to go in, saying that he would recognize his Grand Murshid (Dada Pir Sahib) there. Sarkar Aala Hazrat (ra) went inside and experienced the presence of Hazrat Baba Tajuddin (ra) at the grave of Hazrat Sufi Abdul Hakeem Shah Sahib (ra); he kissed his feet in respect. He came out with a transformed understanding.

ایک بار، سرکار یوسف شاہ باباؒ سرکار اعلیٰ حضرتؒ کو ایک قبرستان لے گئے، جہاں ایک بہت پرانا کمرہ تھا جس میں دو قبریں تھیں۔ وہ باہر رُک گئے اور سرکار اعلیٰ حضرتؒ سے کہا کہ اندر جائیں اور فرمایا کہ وہاں آپ اپنے دادا پیر صاحب کو پہچان لیں گے۔ سرکار اعلیٰ حضرتؒ اندر گئے اور حضرت بابا تاج الدینؒ کی موجودگی کو حضرت صوفی عبدالحکیم شاہ صاحبؒ کی قبر پر محسوس کیا؛ انہوں نے احتراماً ان کے قدم چومے۔ جب وہ باہر آئے تو ان کی سمجھ میں ایک نئی بصیرت پیدا ہو چکی تھی۔

We know that Sarkar Yousuf Shah Baba (ra) had two Murshids. The first was Hazrat Sufi Abdul Hakeem Shah Sahib (ra), whom he met and took Bai’ath with in Ajmer Shareef. Later, in a dream, he was called to Nagpur by Hazrat Baba Tajuddin (ra). Sarkar Yousuf Shah Baba (ra) described meeting Hazrat Sufi Abdul Hakim Shah Sahib (ra) in Ajmer Shareef and how he continued to see him all along in Nagpur. This does not mean that the physical appearance of Hazrat Baba Tajuddin (ra) changed to that of Hazrat Sufi Abdul Hakeem Shah Sahib (ra). It is about the Essence (Zaat), where there is no duality—only Oneness.

ہم جانتے ہیں کہ سرکار یوسف شاہ باباؒ کے دو مرشد تھے۔ پہلے حضرت صوفی عبدالحکیم شاہ صاحبؒ تھے، جن سے انہوں نے اجمیر شریف میں ملاقات کی اور ان کے دستِ مبارک پر بیعت کی۔ بعد میں، ایک خواب میں انہیں حضرت بابا تاج الدینؒ نے ناگپور بلایا۔ سرکار یوسف شاہ باباؒ نے بیان کیا کہ انہوں نے کس طرح اجمیر شریف میں حضرت صوفی عبدالحکیم شاہ صاحبؒ سے ملاقات کی اور پھر کیسے ناگپور میں بھی ان کے دیدار کا سلسلہ جاری رہا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ حضرت بابا تاج الدینؒ کی جسمانی صورت حضرت صوفی عبدالحکیم شاہ صاحبؒ میں بدل گئی۔ یہ بات ذات کی ہے، جہاں دوئی نہیں، صرف وحدانیت ہے۔

Sarkar Baba Sahib (ra) warned that, knowing this, we must be very careful not to take Houston to Madinah Shareef, as that would be Shirk (polytheism). Instead, bring Madinah Waaley Baba (saw) here; Madinah Shareef will follow and come here because it is known for and associated with Hazoor (saw).

سرکار بابا صاحبؒ نے تنبیہ کی کہ اس بات کو جانتے ہوئے ہمیں بہت احتیاط کرنی چاہیے کہ ہیوسٹن کو مدینہ شریف نہ لے جائیں، کیونکہ یہ شرک ہوگا۔ اس کے بجائے، مدینہ والے باباؐ کو یہاں لائیں؛ مدینہ شریف خود پیچھے آئے گا، کیونکہ وہ حضورؐ سے منسوب اور ان کے لیے معروف ہے۔

We consider traveling to places like Nagpur, Makkah al-Mu’azzamah, and Madinah al-Munawwarah, but the distance can be shortened. Wherever you are, it can become that place. It is not just your belief; with Yaqeen, you recognize what is already there. Wherever Sarkar Yousuf Shah Baba (ra) is, Nagpur is present, because it feels the fragrance of Hazrat Baba Tajuddin (ra). Nagpur does not make Hazrat Baba Tajuddin (ra) who he is. It is Hazrat Baba Tajuddin (ra) who makes Nagpur an honored and sacred place. The one who “got” Hazrat Baba Tajuddin (ra) is the one who requested Hazrat Baba Tajuddin (ra) from Hazrat Baba Tajuddin (ra). Now, Nagpur searches for its owner.

ہم ناگپور، مکۃ المکرمہ، اور مدینہ المنورہ جیسے مقامات پر  جانے کا سوچتے ہیں، مگر فاصلہ کم کیا جا سکتا ہے۔ جہاں بھی آپ ہوں، وہ جگہ وہی بن سکتی ہے۔ یہ محض عقیدہ نہیں بلکہ یقین کے ساتھ آپ پہچان لیتے ہیں کہ وہ جگہ پہلے سے موجود ہے۔ جہاں بھی سرکار یوسف شاہ باباؒ ہیں، وہاں ناگپور موجود ہے، کیونکہ وہاں حضرت بابا تاج الدینؒ کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔ ناگپور حضرت بابا تاج الدینؒ کو ان کے مقام پر نہیں پہنچاتا؛ یہ حضرت بابا تاج الدینؒ ہیں جو ناگپور کو معزز اور مقدس بناتے ہیں۔ جس نے حضرت بابا تاج الدینؒ کو ”پایا“، وہی ضرت بابا تاج الدینؒ سے ضرت بابا تاج الدینؒ کا طلبگار ہوا۔ اب ناگپور اپنے مالک کو تلاش کرتا ہے۔

The Khana-e-Kaaba yearns for the fragrance of Hazoor (saw). The Kaaba mourns and longs for its “Owner of the House,” who is in Madinah Shareef. Thus, it is not the location that matters; it is where the Bazurg is—that place carries his fragrance. The spot in Madinah Shareef where Hazoor (saw) once set foot is Riaz-ul-Jannah. Any ground that has borne the footsteps of Hazoor (saw) is Madinah Shareef.

خانہ کعبہ حضورؐ کی خوشبو کے لیے تڑپتا ہے۔ کعبہ غمگین ہے اور اپنے ”صاحبِ بیت“ کے لیے ترستا ہے، جو مدینہ شریف میں ہیں۔ لہٰذا، مقام کا کوئی خاص معنی نہیں؛ وہ جگہ اہمیت رکھتی ہے جہاں بزرگ ہوں—وہ جگہ ان کی خوشبو سے مہک اٹھتی ہے۔ مدینہ شریف میں وہ مقام جہاں حضورؐ نے قدم رکھا، ریاض الجنہ ہے۔ ہر وہ زمین جہاں حضورؐ کے قدم مبارک پڑے، وہ مدینہ شریف ہے۔

2.2 Hayat-un-Nabi

2.2 حیاتُ النبی

There are two aspects to Hayat-un-Nabi (the Life of the Messenger):

حیاتُ النبیؐ  کے دو پہلو ہیں:

  1. When Rasool’Allah (saw) was physically alive, he had a set routine for visiting his wives. It is the same now. We refer to them as Azwaj-e-Mutahirat (the Purified and Blessed Wives). They are still alive, according to our faith.

۱۔ جب رسول اللہؐ  ظاہری طور پر حیات تھے، تو آپؐ کا اپنی ازواج کے پاس جانے کا ایک مقررہ معمول تھا۔ یہ معمول آج بھی جاری ہے۔ ہم ان کو ازواجِ مطہرات (پاک اور بابرکت بیویاں) کہتے ہیں۔ ہمارے عقیدے کے مطابق، وہ آج بھی زندہ ہیں۔

  1. When a devoted person becomes spiritually one with the Prophet (saw) (Fana-fi-Rasool), duality disappears. In this union, the person acquires the same qualities and capabilities. There is no difference. He becomes ‘Muhammad’ in every respect, without doubt. Thus, Madinah Shareef is there with him.

۲۔ جب ایک عاشق رسولؐ روحانی طور پر نبیؐ کے ساتھ یگانگت حاصل کر لیتا ہے (فنا فی الرسول)، تو دوئی ختم ہو جاتی ہے۔ اس وحدت میں وہ عاشق انہی صفات اور صلاحیتوں کا حامل ہو جاتا ہے۔ اس میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ وہ ہر اعتبار سے ’محمد‘ بن جاتا ہے، بغیر کسی شبہ کے۔ یوں، مدینہ شریف بھی اس کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔

It is nearly impossible to describe this transformation in any language, because the necessary vocabulary does not exist. Sarkar Yousuf Shah Baba (ra) is Hazrat Baba Tajuddin (ra). He is ‘Muhammad,’ no one else, in every way. Similarly, all Auliya (saints) who have achieved Fana-fi-Rasool are also ‘Muhammad,’ all of them, everywhere, simultaneously.

اس روحانی تبدیلی کو کسی زبان میں بیان کرنا تقریباً ناممکن ہے، کیونکہ ضروری الفاظ موجود نہیں ہیں۔ سرکار یوسف شاہ باباؒ، حضرت بابا تاج الدینؒ ہیں۔ وہ ہر پہلو سے ’محمد‘ ہیں، اور کوئی اور نہیں۔ اسی طرح، تمام اولیاء کرام جو فنا فی الرسول کے مقام پر پہنچ چکے ہیں، وہ بھی ’محمد‘ ہیں—سب کے سب، ہر جگہ، ہر وقت۔

Going back to Sarkar Yousuf Shah Baba (ra) asking Sarkar Aala Hazrat (ra) to “bring Nagpur,” it was simply a way to help him realize that Nagpur is already here; there was nothing to bring.

سرکار یوسف شاہ باباؒ کے سرکار اعلیٰ حضرتؒ سے ”ناگپور لانے“ کی درخواست کی طرف پلٹتے ہوئے، یہ محض انہیں یہ حقیقت سمجھانے کا ایک طریقہ تھا کہ ناگپور پہلے ہی یہاں موجود ہے؛ لانے کے لیے کچھ نہیں تھا۔

2.3 Lots of Travels (Bardi Sair)

2.3 کثرتِ سفر (بڑی سیر)

In Rawalpindi, Pakistan, Sarkar Baba Sahib (ra) once visited Hazrat Bhaijaan Rahmani (ra) (a Khalifa of Hazrat Farooq Rahmani (ra)). While Hazrat Bhaijaan Rahmani (ra) was out of the room, a Bazurg (Elder) entered. It was unclear who he was, where he came from, or who brought him. He was clean-shaven, with only a mustache, wearing bright white cotton clothes—very neat and good-looking. He looked intently at Sarkar Baba Sahib (ra), especially his forehead, and said in Urdu, “Wah, Bardi Sair Haey, Subhan’Allah.”

راولپنڈی، پاکستان میں، سرکار بابا صاحبؒ نے ایک بار حضرت بھائی جان رحمانیؒ (جو حضرت فاروق رحمانیؒ کے خلفاء میں سے تھے) سے ملاقات کی۔ جب حضرت بھائی جان رحمانیؒ کمرے سے باہر تھے تو ایک بزرگ اندر تشریف لائے۔ یہ واضح نہیں تھا کہ وہ کون تھے، کہاں سے آئے تھے، یا انہیں کون لے کر آیا تھا۔ وہ کلین شیو تھے، صرف مونچھیں تھیں، اور نہایت صاف ستھرا سفید کاٹن کا لباس زیب تن کیے ہوئے تھے—بہت نفیس اور خوش شکل دکھائی دیتے تھے۔ انہوں نے سرکار بابا صاحبؒ کی طرف گہری نظر سے دیکھا، خاص طور پر ان کی پیشانی کی طرف، اور اردو میں کہا: ”واہ، بڑی سیر ہے، سبحان اللہ۔“

Sarkar Baba Sahib (ra) did not know what he meant, so he asked a friend to inquire. The man replied, “You will travel a lot.” Sarkar Baba Sahib (ra) wanted to know where these travels would take him. Before he could get an answer, Hazrat Bhaijaan Rahmani (ra) returned, recognized the gentleman, and upon hearing what had transpired, looked at the man intently and warned him, “Khabardaar!” (Be careful!). Around midnight, the man left, and Sarkar Baba Sahib (ra) did not learn who he was.

سرکار بابا صاحبؒ کو اس بات کا مطلب سمجھ نہیں آیا، اس لیے انہوں نے ایک دوست سے دریافت کیا۔ اس شخص نے جواب دیا: ”آپ بہت سفر کریں گے۔“ سرکار بابا صاحبؒ جاننا چاہتے تھے کہ یہ سفر انہیں کہاں لے جائیں گے۔ اس سے پہلے کہ کوئی جواب ملتا، حضرت بھائی جان رحمانیؒ واپس آئے، اس بزرگ کو پہچانا، اور واقعہ سن کر بزرگ کی طرف گہری نظر سے دیکھا اور انہیں خبردار کیا: ”خبردار!“ آدھی رات کے قریب وہ بزرگ چلے گئے، اور سرکار بابا صاحبؒ یہ معلوم نہ کر سکے کہ وہ کون تھے۔

2.4 The Root of the Truth

2.4 حقیقت کی جڑ

Sarkar Baba Sahib (ra) advised listeners to repeat, review, and reflect upon what he had shared. It was of great importance—a solution to many future problems and a rich source of untold blessings and rewarding spiritual experiences. Essentially, it was a shortcut to the Root of the Truth. If you do not see ‘Muhammad’ in your Murshid, then you risk committing idolatry (Shirk). Save yourselves from this. People often give a long list of honorary titles to their Sheikh, but in reality, only ‘Muhammad’ would suffice.

سرکار بابا صاحبؒ نے سامعین کو نصیحت فرمائی کہ وہ ان کے بیان کردہ نکات کو دہراتے رہیں، ان پر غور کریں اور ان کے مفہوم پر تدبر کریں۔ یہ ایک نہایت اہم بات تھی—مستقبل کے بہت سے مسائل کا حل اور بے شمار برکتوں اور روحانی تجربات کا ذریعہ۔ دراصل، یہ حقیقت کی جڑ تک پہنچنے کا ایک مختصر راستہ تھا۔ اگر آپ اپنے مرشد میں محمد نہ دیکھیں، تو آپ شرک کے خطرے میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ خود کو اس سے بچائیں۔ لوگ اکثر اپنے شیخ کو لمبے چوڑے اعزازی القابات سے نوازتے ہیں، مگر حقیقت میں صرف محمد کا لقب ہی کافی ہے۔

An interesting question arises: What is the difference between the Companions of the Messenger (saw) (Sahaba) and us? The Sahaba had the blessed privilege of seeing Hazoor (saw) in his manifested physical self (Zahir), whereas we experience him in his hidden self (Batin). Some of the Companions also experienced both realities. Hazoor (saw) was both a Nabi (Prophet) and a Wali (Saint). He had said that his Wilayat (Sainthood) took precedence over his Nabuwwat (Prophethood). Every Prophet (as) possessed both, but here we speak about the Wilayat of the Nabi, which our Nisbat can help us experience. Without comprehending this, Tasawwuf (the Sufi Way) has no meaning; it is the soul of Tasawwuf. It is the foundation of the concept of Tawheed (Oneness).

ایک دلچسپ سوال یہ پیدا ہوتا ہے: صحابہ کرامؓ اور ہم میں کیا فرق ہے؟ صحابہ کرامؓ کو یہ مبارک فضیلت حاصل تھی کہ وہ حضورؐ کو ان کی ظاہر جسمانی حالت میں دیکھتے تھے، جبکہ ہم ان کی باطنی حالت میں انہیں دیکھ پاتے ہیں۔ بعض صحابہ کرامؓ کو دونوں حالتوں کا مشاہدہ نصیب ہوا۔ حضورؐ نبی بھی تھے اور ولی بھی۔ آپؐ نے فرمایا کہ ان کی ولایت ان کی نبوت پر مقدم ہے۔ ہر نبیؑ دونوں خصوصیات کا حامل ہوتا ہے، مگر یہاں ہم نبی کی ولایت کی بات کر رہے ہیں، جس کا فیض ہماری نسبت کے ذریعے ہمیں حاصل ہو سکتا ہے۔ اس حقیقت کو سمجھے بغیر تصوف (صوفی طریقہ) کا کوئی مفہوم نہیں؛ یہ تصوف کی روح ہے۔ یہی توحید کے تصور کی بنیاد ہے۔

2.5 The Plain of Arafat

2.5 میدان عرفات

Hajj (Pilgrimage) essentially involves Tawaaf (circumambulation) of the Khana-e-Kaaba (House of Allah), both at the beginning of Hajj—when you first see the Kaaba—and at the end, as a farewell gesture. In between, there are practices from the tradition of Hazrat Ibrahim (as) (Sunnat-e-Ibrahimi) that Hazoor (saw) liked, which became the basis of Umrah and Hajj. The brisk walking between Safa and Marwa Hills (Sa’ee) is the Sunnah of Hazrat Bibi Hajra (as).

حج بنیادی طور پر خانہ کعبہ کا طواف کرنے پر مشتمل ہے، جو حج کے آغاز میں ہوتا ہے جب آپ پہلی بار کعبہ کو دیکھتے ہیں، اور اختتام پر الوداعی طواف کے طور پر کیا جاتا ہے۔ اس کے درمیان حضرت ابراہیمؑ  کی سنتیں شامل ہیں، جنہیں حضورؐ نے پسند فرمایا، اور یہ عمرہ اور حج کی بنیاد بن گئیں۔ صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان تیز قدم چلنا (سعی) حضرت بی بی ہاجرہؑ کی سنت ہے۔

All these Hajj rituals, similar to Salah (Namaz), are either Fard (obligatory), Sunnah (recommended), or Nafl (optional). Central to them all is the experience of the Plain of Arafat. There is no building there—no distraction—just our essential belief that it is the opportunity to have direct contact with Allah (swt). He has invited us, and we can have a one-to-one dialogue. There is no third person; you can make Dua and do Zikr all day and night in Arafat, and He will accept your prayers.

حج کے یہ تمام  اعمال، نماز کی طرح، یا تو فرض ہیں، یا سنت ہیں، یا نفل ہیں۔ ان تمام اعمال میں سب سے مرکزی حیثیت میدان عرفات کو حاصل ہے۔ وہاں کوئی عمارت نہیں، کوئی خلل نہیں—بس ہمارا بنیادی عقیدہ کہ یہ اللہ تعالیٰ سے براہ راست رابطے کا موقع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں مدعو کیا ہے، اور ہم ان سے ایک ذاتی گفتگو کر سکتے ہیں۔ وہاں کوئی تیسرا شخص نہیں، آپ پورا دن اور رات دعائیں اور ذکر کر سکتے ہیں، اور وہ آپ کی دعائیں قبول کریں گے۔

Now, one might ask whether Allah (swt) is only in the Plain of Arafat to hear such Duas. Certainly not; He is everywhere. The key difference is that, in Arafat, you experience the Azan-e-Ibrahimi (the Call of Prophet Ibrahim (as)), which resonates in your heart. We have a deep desire to go there for Hajj because we hold the fundamental belief that the Azan-e-Ibrahimi has touched our hearts. That is why we hasten and repeatedly say, “Labaik, Labaik…” We feel invited, so it is a special level of experience. The same Khuda (God) is here and there. The occasion, however, is special. You have been specifically invited. Your heart heard the Call and is ready for a special dialogue with the Divine

اب کوئی یہ سوال کر سکتا ہے کہ کیا اللہ سبحانہ و تعالیٰ صرف میدانِ عرفات میں یہ دعائیں سننے کے لیے موجود ہیں؟ یقیناً نہیں؛ وہ ہر جگہ موجود ہیں۔ اصل فرق یہ ہے کہ عرفات میں آپ اذانِ ابراہیمی کا تجربہ کرتے ہیں، جو آپ کے دل میں گونجتی ہے۔ ہمارے دل میں حج پر جانے کی شدید خواہش اسی لیے ہے کہ ہم اس بنیادی عقیدے پر یقین رکھتے ہیں کہ اذانِ ابراہیمی نے ہمارے دلوں کو چھو لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم تیزی سے ”لبیک، لبیک…“ کہتے ہیں۔ ہم مدعو محسوس کرتے ہیں، اس لیے یہ ایک خاص درجے کا تجربہ ہے۔ وہی خدا یہاں بھی ہے اور وہاں بھی۔ مگر موقع خاص ہے۔ آپ کو خاص طور پر مدعو کیا گیا ہے۔ آپ کے دل نے اس پکار کو سنا ہے اور رب سے خاص مکالمے کے لیے تیار ہے۔

It is historically known that Hazrat Ibrahim (as) often conversed with Allah (swt). Wherever he went, it was like the Plain of Arafat. He prayed from his heart for a place called the House of Allah, where believers from everywhere could come together for worship. Allah (swt) accepted his prayer and allowed him to build this House of Allah (swt). So he did. But it was empty, and no one came. Allah (swt) then told him to climb onto its roof and give an Azan (call to prayer of that era) in all four directions. The Call would reach the hearts of people for all time, and they would come calling, “Labaik, Labaik…” This is precisely what we witness today.

یہ بات تاریخی طور پر معلوم ہے کہ حضرت ابراہیمؑ اکثر اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے ہمکلام ہوتے تھے۔ جہاں بھی وہ جاتے، وہ مقام میدانِ عرفات کی طرح ہوتا۔ انہوں نے اپنے دل سے اللہ کے گھر کی جگہ کے لیے دعا کی، جہاں دنیا بھر کے مومن اکٹھے ہو کر عبادت کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور انہیں اللہ کا گھر تعمیر کرنے کی اجازت دی۔ چنانچہ انہوں نے تعمیر کیا۔ لیکن یہ خالی تھا، اور کوئی وہاں نہیں آیا۔ پھر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اس گھر کی چھت پر چڑھ کر چاروں طرف اذان دیں۔ یہ اذان لوگوں کے دلوں تک ہمیشہ کے لیے پہنچے گی، اور وہ ”لبیک، لبیک…“ کہتے ہوئے آئیں گے۔ اور یہ وہی منظر ہے جو ہم آج دیکھتے ہیں۔

2.6 Attending Urs Mubarak in Nagpur

2.6 ناگپور میں عرس مبارک میں شرکت

Sarkar Yousuf Shah Baba (ra) used to go regularly to celebrate the Urs Mubarak in Nagpur. For an upcoming Urs, preparations were underway for a journey there. Sarkar Aala Hazrat (ra) had taken time off and informed his father, Masum Ali Khan Sahib (ra), of his plans. However, his father was concerned about who would take care of him. So, he phoned Sarkar Yousuf Shah Baba (ra) and expressed his worries. Sarkar Yousuf Shah Baba (ra) listened and then asked to speak with Sarkar Aala Hazrat (ra), explaining that he would be back soon. Sarkar Aala Hazrat (ra) pleaded that he wanted to go with Sarkar Yousuf Shah Baba (ra) and return with him. Although Sarkar Yousuf Shah Baba (ra) tried to clarify the father’s concerns, Sarkar Aala Hazrat (ra) began to cry. Eventually, Sarkar Yousuf Shah Baba (ra) spoke with the father again and suggested he not be upset with his son and allow him to prepare to travel the next day by train.

سرکار یوسف شاہ باباؒ ناگپور میں عرس مبارک منانے کے لیے باقاعدگی سے تشریف لے جایا کرتے تھے۔ آئندہ عرس کے لیے سفر کی تیاریاں جاری تھیں۔ سرکار اعلیٰ حضرتؒ نے چھٹی لی تھی اور اپنے والد، معصوم علی خان صاحبؒ، کو اپنے ارادے سے آگاہ کیا۔ تاہم، ان کے والد کو فکر لاحق ہوئی کہ ان کی دیکھ بھال کون کرے گا۔ چنانچہ انہوں نے سرکار یوسف شاہ باباؒ کو فون کیا اور اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ سرکار یوسف شاہ باباؒ نے توجہ سے سنا اور پھر سرکار اعلیٰ حضرتؒ سے بات کرنے کی درخواست کی، یہ بتاتے ہوئے کہ وہ جلد واپس آ جائیں گے۔ سرکار اعلیٰ حضرتؒ نے منت کی کہ وہ سرکار یوسف شاہ باباؒ کے ساتھ جانا چاہتے ہیں اور ان کے ساتھ ہی واپس آنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ سرکار یوسف شاہ باباؒ نے والد کی فکر کو واضح کرنے کی کوشش کی، مگر سرکار اعلیٰ حضرتؒ رونے لگے۔ بالآخر، سرکار یوسف شاہ باباؒ نے دوبارہ والد سے بات کی اور تجویز دی کہ وہ اپنے بیٹے سے ناراض نہ ہوں اور انہیں اگلے دن ٹرین کے ذریعے سفر کی تیاری کرنے دیں۔

That night, Sarkar Aala Hazrat (ra) felt feverish. The fever rose to the point where, by morning, he was nearly unconscious, unable to sit or stand. Seeing this, Masum Ali Khan Sahib (ra) told him he would not prevent him from going, given that he had permission, and he would arrange for someone to carry him in a chair if needed. Sarkar Aala Hazrat (ra) asked his father to inform Sarkar Yousuf Shah Baba (ra) of his situation. Then he went back to sleep. Hours later, when he awoke in the same condition, he resigned himself to not going.

اس رات، سرکار اعلیٰ حضرتؒ کو بخار محسوس ہوا۔ بخار اس قدر بڑھ گیا کہ صبح تک وہ تقریباً بے ہوش ہو چکے تھے اور نہ بیٹھنے کے قابل تھے اور نہ کھڑے ہونے کے۔ یہ دیکھ کر معصوم علی خان صاحبؒ نے فرمایا کہ وہ انہیں جانے سے منع نہیں کریں گے، کیونکہ انہیں اجازت مل چکی ہے، اور وہ  انتظام کریں گے کہ ضرورت پڑنے پر انہیں کرسی میں اٹھا کر لے جایا جائے۔ سرکار اعلیٰ حضرتؒ نے اپنے والد سے درخواست کی کہ وہ سرکار یوسف شاہ باباؒ کو ان کی حالت سے آگاہ کریں۔ پھر وہ دوبارہ سو گئے۔ گھنٹوں بعد جب وہ اسی حالت میں جاگے، تو انہوں نے یہ سوچ کر تسلیم کر لیا کہ اب وہ سفر نہیں کر سکیں گے۔

There remained the issue of Sarkar Aala Hazrat (ra)’s ticket, which was already paid for. He had a close friend, Mehmood Sahib (ra), who volunteered to use that ticket and travel in his stead. They agreed, and Mehmood Sahib (ra) went to Nagpur. After a few days there, he began experiencing an intense state of Jazb. It became so intense that they summoned his father and uncle to care for him—but not to remove him from Nagpur. Soon after, Mehmood Sahib (ra) passed away in Nagpur.

سرکار اعلیٰ حضرتؒ کے ٹکٹ کا مسئلہ باقی تھا، جو کے پہلے ہی خریدا جا چکا تھا۔ ان کے ایک قریبی دوست، محمود صاحبؒ، نے رضاکارانہ طور پر پیشکش کی کہ وہ اس ٹکٹ کو استعمال کریں گے اور ان کی جگہ سفر کریں گے۔ اس پر اتفاق ہو گیا، اور محمود صاحبؒ ناگپور روانہ ہو گئے۔ وہاں چند دن گزارنے کے بعد وہ ایک شدید حالتِ جذب میں مبتلا ہو گئے۔ یہ حالت اس قدر شدید ہو گئی کہ ان کے والد اور چچا کو بلایا گیا تاکہ وہ ان کی دیکھ بھال کر سکیں—لیکن انہیں ناگپور سے نہ ہٹائیں۔ جلد ہی محمود صاحبؒ کا ناگپور میں انتقال ہو گیا۔

Speaking of this state of Jazb, Sarkar Baba Sahib (ra) revealed that, by Allah’s infinite grace, he has complete control over his own intense Jazb. He can render it so mild that others do not even notice it. This is a miracle since, ordinarily, it is not possible to hide it to that extent.

اس حالتِ جذب کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے سرکار بابا صاحبؒ نے انکشاف کیا کہ اللہ کے لا محدود فضل سے انہیں اپنی شدید جذب کی کیفیت پر مکمل قابو حاصل ہے۔ وہ اسے اس قدر ہلکا کر سکتے ہیں کہ دوسرے لوگ اسے محسوس بھی نہیں کرتے۔ یہ ایک کرامت ہے، کیونکہ عام طور پر اسے اس حد تک چھپانا ممکن نہیں ہوتا۔

3.0 Concluding Statement

3.0 اختتامی بیان

The concepts of Shortening the Distance and Hayat-un-Nabi are important for reaching the Root of the Truth. Those on the Sufi Path should reflect deeply on these teachings to better understand and integrate them into their lives.

فاصلے کم کرنے اور حیات النبی کے تصورات حقیقت کی جڑ تک پہنچنے کے لیے نہایت اہم ہیں۔ جو لوگ صوفی راہ پر گامزن ہیں، انہیں چاہیے کہ ان تعلیمات پر گہرائی سے غور کریں تاکہ انہیں بہتر طور پر سمجھ سکیں اور اپنی زندگی میں شامل کر سکیں۔

May Allah Almighty help us to understand and grant us the Taufiq (divine enablement) to apply these invaluable lessons in our lives. Ameen!

اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھنے میں مدد فرمائے اور ان قیمتی اسباق کو اپنی زندگی میں نافذ کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین!